سوال کی اہمیت و افادیت ہر وقت اور ہر دور میں مسلم رہی ہے، سوال جہاں عالم ارواح میں بنی نوع انسانیت سے’’ألست بربکم‘‘ کے ذریعے کیا گیا تو مرنے کے بعد بھی قبر میں ’’منکرنکیر‘‘ کے سوالات سے کسی کو چھٹکارا نہیں اور کل قیامت کے دن ہر ایک شخص سے اس کے اعمال کے بارے میں مختلف سوالات کیے جائیں گے اور اسے ان سوالوں کے جواب دیے بغیر راہ فرار نہیں غرضیکہ انسانی زندگی میں عدم سے وجود تک سوال ہی سوال ہے!!
لیکن اس تحریر میں ایک الگ سوال کے بارے میں ذکر ہوگا اور وہ ہے کسی مسئلے کے بارے میں شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لیے استفسار کرنا اور کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سوالات کرنا جو کہ انسانی زندگی میں نہایت ہی اہم ہے اور جس کے بغیر کوئی بھی شخص زندگی کے کسی بھی شعبہ میں کامیاب و کامران نہیں ہوسکتا کیونکہ انسانی زندگی میں سوالات کیے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اسی اہمیت کے پیش نظر خود اللہ تعالیٰ نے سوال کرنے کا حکم دیا ہے فرمان الٰہی ہے:
فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون(اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو)
لہذا ہمیں کسی بھی مسئلے کی وضاحت کے لیے سوالات کرنے میں شرمانا اور ہچکچانا نہیں چاہیے کیونکہ جہالت اور لاعلمی ایک بیماری ہے اور اس کی دوااور شفا سوال کرنے میں ہے۔
سنن ابی داؤد کی ایک روایت ہے:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : خَرَجْنَا فِي سَفَرٍ، فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ، فَشَجَّهُ فِي رَأْسِهِ، ثُمَّ احْتَلَمَ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ فَقَالَ : هَلْ تَجِدُونَ لِي رُخْصَةً فِي التَّيَمُّمِ ؟ فَقَالُوا : مَا نَجِدُ لَكَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ. فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَقَالَ : ” قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا ؟ فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ”.(سنن أبي داود | كِتَابُ الطَّهَارَةِ | بَابٌ : فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ |٣٣٦ وحسنه الألباني) حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ہم لوگ ایک سفر میں نکلے تو ہم میں سے ایک شخص کے سر میں پتھر لگا جس کی وجہ سے اس کا سر شدید زخمی ہوگیا اور پھر وہ محتلم ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کرنے کے سلسلے میں کوئی رخصت پاتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم تمھارے لیے کوئی رخصت اور چھوٹ نہیں پاتے جبکہ تم پانی کے حصول پر قادر ہو، چنانچہ اس نے غسل کیا اور وہ انتقال کرگیا)
پھر جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ کو پورے واقعے سے باخبر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان لوگوں نے اسے قتل کردیا اللہ انھیں ہلاک کرے، جب انھیں مسئلہ پتہ نہیں تھا تو معلوم کیوں نہیں کیا؟؟ کیونکہ جہالت اور لاعلمی کی شفا سوال کرنے میں ہے۔‘‘
لہذا اگر ہمیں کسی مسئلے کے بارے میں علم نہیں ہے تو اس کے بارے میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے پہلی فرصت میں معلومات حاصل کرنا چاہیے خصوصا دینی و فقہی مسائل میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی بےجا اور غیر ضروری سوالات سے اجتناب کرنا اور بچنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ(انچیزوں کے بارے میں سوالات نہ کرو کہ اگر وہ تمھارے لیے واضح ہوجائیں تو تمھیں تکلیف پہنچے)
اور ایک متفق علیہ روایت ہے:
عن المغيرة بن شعبة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:”إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا : قِيلَ وَقَالَ ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ “( صحيح البخاري | كِتَابٌ : الزَّكَاةُ | بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى : لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا. 1477 وصحيح مسلم | كِتَابٌ : الْأَقْضِيَةُ | بَابٌ : النَّهْيُ عَنْ كَثْرَةِ الْمَسَائِلِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ 593 واللفظ له)حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ تمھارے لیے تین چیزوں کو ناپسند فرماتا ہے:
۱۔ قیل و قال (کٹ حجتی) کرنا
۲۔ مال و دولت کو ضائع و برباد کرنا
۳۔ بہت زیادہ (بے جا) سوالات کرنا
لہٰذا آپ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ آپ کو جو بھی مسئلہ در پیش ہو بغیر کسی جھجھک اور شرم کے اس بارے میں شریعت کا حکم اور اس کی تعلیمات دریافت کریں لیکن سوالات کرنے میں مذکورہ بالا باتوں کا بھی خاص خیال رکھیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینی مسائل کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
آپ کے تبصرے