غم سے آزاد ہو گئے ہیں ہم
یعنی برباد ہو گئے ہیں ہم
اتفاقا ہی یاد آتے ہیں
موت کی یاد ہو گئے ہیں ہم
جو بھی پڑھتا ہے ہم کو روتا ہے
دل کی فریاد ہو گئے ہیں ہم
اک غم زندگی ہے، سب کو لگا
کوئی فرہاد ہو گئے ہیں ہم
جب سے خوشیوں سے رشتہ ٹوٹ گیا
غم کے شہزاد ہوگئے ہیں ہم
ہر کوئی چیختا ہے ہم پے حسن
شعر کی داد ہو گئے ہیں ہم
آپ کے تبصرے