دھوپ ہے، چھاؤں ہے، ظلمت ہے، ضیا ہے، کیا ہے؟
شہر ہے، آگ ہے، جنگل ہے، خلا ہے، کیا ہے؟
اپنے سائے سے ہراک شخص ہے لرزاں ترساں
خواب ہے، وہم ہے، وحشت ہے، بلا ہے، کیا ہے؟
اس قدر مجھ کو حقارت سے وہ کیوں دیکھتا ہے
وہ پیمبر ہے، فرشتہ ہے، خدا ہے، کیا ہے؟
یہ جو اک شخص پس آئینہ آتا ہے نظر
کوئی انسان ہے، انسان نما ہے، کیا ہے؟
اس کا انداز سخن مجھ کو نہ پاگل کر دے
مجھ کو ہر بات پہ کہتا ہے کہ کیا ہے، کیا ہے؟
عشق جب ہو ہی گیا ہے تو تامل کیسا
خاک اب سوچنا اچھا ہے، برا ہے، کیا ہے؟
حق انساں کے علمدار کہاں بیٹھے ہیں
ظلم جو کچھ مری نسلوں پہ روا ہے، کیا ہے؟
مانتا ہوں کہ قیامت ہے قیامت لیکن
میں نے اب تک یہ جو اک عمر جیا ہے، کیا ہے؟
ایک ہی عکس نگاہوں میں ہے چلتے پھرتے
کوئی بتلائے یہ مجھ کو جو ہوا ہے، کیا ہے؟
آپ کے تبصرے