معاصرین کی اصطلاح میں فصیح عربی زبان کا اطلاق ہر اس کلمہ پر ہوتا ہے جو عربی قواعدکے موافق ہو۔ لیکن عربی زبان کے قدیم علماء کا نظریہ اس سلسلے میں ذرا مختلف ہے۔ان کے یہاں فصیح، مولد، دخیل اور معرب جیسے اصطلاحات پائے جاتے ہیں۔زیرنظر مضمون میں عربی زبان کے انھی مظاہر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
شہر کے اعتبار سے زمانۂ جاہلیت سے لے کر دوسری صدی ہجری تک اور دیہی علاقوں کے حساب سے چوتھی صدی ہجری تک کے زمانے کو عصور الاحتجاج کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں جو عربی نصوص نثر ونظم کی شکل میں جمع کیے گئے، وہ قدیم علماء عرب کی اصطلاح میں فصیح عربی زبان قرار پائی۔ یہ فصیح زبان مختلف کتابوں میں مدون کی گئی ہے، جیسے شعری دیوان، کتب المسلسلات والمشجرات والمثلثات، رسائل لغویہ، کتب الابنیہ، کتب الموضوعات اور کتب المعاجم۔ جیسے خلیل کی معجم عین سے شروع ہو کر مرتضی زبیدی کی تاج العروس تک۔ مندرجہ بالا اقسام کی کتابوں میں جو بھی عربی نصوص جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، وہ قدیم علماء کی اصطلاح میں فصیح اور صحیح عربی زبان ہے۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام جوہری نے اپنی کتاب کا نام’ تاج اللغة وصحاح العربية‘ رکھا ہے۔
یعنی انھوں نے عصور الاحتجاج میں رائج ہونے والے کلام عرب کو جمع کیا ہے۔ اس دور کی عربی سے بالاتفاق نحوی وصرفی قواعد اور عربی الفاظ کی صحت پر استدلال کیا گیا ہے۔ اسی طرح کسی لفظ کے فصیح، شاذ، قوی یا نادر ہونے میں بھی اس دور کے عربی جملے، مقولے، ضرب الامثال،أسلوب اور استعمال سے احتجاج کیا گیا ہے۔
المولد:
یہ عربوں کا کلام نہیں ہوتا، اسی لیے اس سے احتجاج بھی نہیں کیا گیا، امام سیوطی فرماتے ہیں:
’ هو ما أحدثه المولدون الذين لا يحتج بألفاظهم‘
غالبا زمانۂ احتجاج سے لے کر اب تک جو عربی الفاظ، جملے اور اسلوب وجود میں آئے ہیں، چاہے وہ تولید کے ذریعے ہوں، یا نحت کے ذریعے، یا لوگوں کے آپسی میل ملاپ سے وجود میں آئے ہوں، اس طرح کی مولد عربی سے نحویوں اور صرفیوں نے استدلال نہیں کیا ہے۔ عربی معاجم جیسے تہذیب اللغۃ، تاج اللغۃ، لسان العرب، العباب اور تاج العروس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ معاجم کی کتابوں میں جہاں کہیں بھی ’ھذہ عربیۃ وھذہ مولدۃ، وھذا کلام مستحدث، وھذا کلام المولدین، وھذا غیر فصیح جیسی اصطلاح آئے تو اس سے مراد مولد ہی ہوتا ہے۔ قدیم علماء عرب کے یہاں اس اصطلاح کا استعمال نسبی ہوتا تھا، کبھی کبھی وہ عصر اسلام اور عصور الاحتجاج میں وجود میں آنے والے الفاظ پر بھی مولد کا اطلاق کرتے تھے۔ جیسے اصمعی کا قول ہے’’ أيام العجوز ليس من كلام العرب في الجاهلية، إنما ولَد في الإسلام۔‘‘
تولید جس طرح الفاظ کو شامل ہے اسی طرح تراکیب اور معانی کو بھی شامل ہے۔کسی بھی زبان کے نمو وترقی میں تولید کا رول بہت اہم ہوتا ہے، اسی لیے علماء عرب نے اس پر خصوصی توجہ دی ہے۔ امام سیوطی نے ’المزھر فی علوم اللغۃ وأنواعھا‘ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور حلمی خلیل نے اس پر مستقل کتاب (المولد فی العربیۃ) لکھی ہے۔
الدخیل:
عربی زبان کی ایک قسم یا ایک مظہر الدخیل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو عربی زبان میں دوسری زبان کے الفاظ درآئے، پھر وہ بغیر کسی تبدیلی کے یا تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ استعمال ہوں۔ جیسے انترنت، الکمبیوتر، بنشر، خانۃ، سادہ، بلط، سیدہ وغیرہ۔
دخیل زبان کا ایک ایسا مظہر ہے جس سے دنیا کی ہر زبان متاثر ہوتی ہے، ملکوں اور قوموں کے درمیان جس قدر تعلقات، لین دین اور روابط پیدا ہوں گے، اسی قدر دونوں کی زبانوں میں ایک دوسرے کے الفاظ بھی داخل ہوں گے۔
چونکہ زبان کی ترقی میں دخیل کا بھی رول کافی اہم ہوتاہے اس لیے علماء نے اس پر خصوصی توجہ دی ہے، چنانچہ اس پر بشبشی نے ’التذییل والتکمییل لما استعمل من اللفظ الدخیل‘ لکھی، شہاب الدین الخفاجی کی کتاب ’ شفاء الغليل فيما ورد في كلام العرب من الدخيل‘اسی موضوع پر ہے۔ اور ڈاکٹر ف عبد الرحیم کی اس پر کئی اہم کتابیں ہیں۔ جیسے سواء السبیل فیما فی العربیۃ من الدخیل، قصد السبیل، معجم الدخيل في اللغة العربية الحديثة ولهجاتها۔
تعریب:
یہ کسی بھی زبان کے لیے ترقی اور اس کے فروغ کا ذریعہ ہوتی ہے، زبان کے اندر الفاظ کا تبادلہ ایک فطری عمل ہے، کوئی بھی زبان اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ عربی زبان کا بھی یہی حال ہے کہ اس کے اندر دوسری زبان کے الفاظ اس کثرت کے ساتھ داخل ہوئے کہ اس کا شمار کرنا مشکل ہے، لیکن عربوں نے ان الفاظ کو یوں ہی قبول نہیں کیا، بلکہ ان کو عربی قواعد: اوزان، صیغوں اور قوالب میں ڈھالااور اسی کا نام تعریب ہے۔
تعریب کے لیے زبان کے ماہرین نے کچھ اصول وضوابط مرتب کیے ہیں، ان کی رعایت کے ساتھ ہی غیر عربی کلمات کو عربی میں جگہ ملنی چاہیے۔ جیسے الاستبراق،التنور اور الدینار فارسی سے معرب ہیں۔اسی طرح المنجنیق، البستان، نرجس، ابریسم وغیرہ عربی زبان میں معرب کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
معرب پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں چند اہم یہ ہیں: المعرب من الکلام الأعجمی از جوالقی، وفی التعریب والمعرب از ابن بری، المہذب فیما فی القرآن من المعرب، از سیوطی۔ شیخ نواب صدیق حسن خاں نے بھی (لف القماط) میں بہت سے معرب الفاظ ذکر کیے ہیں۔ سید سلیمان کی ندوی کتاب ’ لغات جدیدہ‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
عربی میں کبھی کبھی دخیل کا لفظ اصیل کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے تب اصیل سے مراد خالص عربی زبان ہوتی ہے اور دخیل سے مراد مولد، دخیل اور معرب وغیرہ ہوتے ہیں۔
اردو زبان میں اصیل ودخیل کے لیے قدیم وجدید کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ اصطلاح عربی- اردو لغت لکھنے والوں کے یہاں عام ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ قدیم علماء عرب کے نزدیک فصیح زبان وہ ہے جس سے عربی زبان کے قواعد پر استدلال کیا گیا ہے، یہ زبان قرآن کریم وحدیث نبوی اور قدیم عربی کتابوں میں محفوظ ہے۔ یہ زبان ہم آج بھی پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں اور قیامت تک باقی رہنے والی ہے۔
مولد: عصور احتجاج کے بعد کی پیداوار ہے اور اس سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔
دخیل: جو الفاظ عربی زبان میں غیر شعوری طور داخل ہوجاتے ہیں اور بغیر کسی تبدیلی کے یا تھوڑی تبدیلی کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔
معرب: وہ ہے جسے عربی قواعد پر ڈھال کر استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔
آپ کے تبصرے