اب تو میں فقط دل کا کہا مان رہا ہوں

عبدالکریم شاد شعروسخن

ذروں کی طرح میں بھی پریشان رہا ہوں

دنیا کی نگاہوں میں بیابان رہا ہوں


اس بار سنورنے کا ارادہ ہی نہیں ہے

ہر بار تو میں عکس پہ حیران رہا ہوں


دوڑایا سرابوں کی طرف عقل نے مجھ کو

اب تو میں فقط دل کا کہا مان رہا ہوں


اب تو مجھے آباد نہ کر پائے گا وہ بھی

جس کے لیے اک عمر سے ویران رہا ہوں


پتھر سے تو کترا کے نکل جاتا ہوں لیکن

آئینے کے آگے میں پریشان رہا ہوں


دنیا مجھے راس آ نہیں سکتی کسی صورت

آخر میں کبھی خلد کا مہمان رہا ہوں


بہلا کے اڑا لائی ہوا دشت میں ورنہ

“گلشن میں رہا ہوں تو بہ صد شان رہا ہوں”


ماں باپ کی نظروں میں ہوں اک باغ کی مانند

بچوں کے لیے کھیل کا میدان رہا ہوں


اب کھا نہیں سکتا تری پوشاک سے دھوکا

دنیا! تجھے ہر بھیس میں پہچان رہا ہوں


بازار میں بکنا مجھے منظور نہیں ہے

ہر چند میں پھینکا ہوا سامان رہا ہوں


اس نے ہی مجھے میرے لیے کر دیا مشکل

اے شاد! میں جس کے لیے آسان رہا ہوں

آپ کے تبصرے

3000