فصیح عربی وعامی زبان: ایک تقابلی مطالعہ

عبدالرحمن شہاب الدین شادی عربی زبان و ادب

عربی عالمی اور دنیا کی زندہ زبانوں میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کی ایک ‌مشترکہ اور رابطہ کی زبان ہے۔ اسی میں ہماری شریعت اور ہمارا دستور حیات قران کریم ہے۔
یہاں لفظ فصیح لفظ عامی کے مقابل استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ زبان ہے جو عربی قواعد کے موافق ہو، معاصرین کے یہاں فصیح سے یہی مراد ہوتی ہے۔
عربی زبان کی بقا وتحفظ کے لیے اب تک جو بھی کام ہوا ہے، اس میں نحویوں، صرفیوں اور علماء لغات ومعاجم کی خدمات سر فہرست ہیں۔
صرفیوں نے جو حروف اصلیہ وزائدہ کے درمیان تمیز کے طریقے بیان کیے ہیں اور مختلف اوزان جیسے ثلاثی مجرد ومزید، رباعی مجرد ومزید، خماسی، سداسی، جمع کثرت وقلت، جمع تکسیراور تصغیر وغیرہ مقرر کیے ہیں، وہ اس لیے تاکہ اگر اس میں غیر عربی الفاظ داخل ہوجائیں تو اس کی صحیح طریقہ سے پہچان ہوسکے۔اسی لیے صرف کی کتابوں میں یہ جملہ بکثرت ملتا ہے کہ’’ هذا بناء لم يثبت في كلام العرب‘‘۔
نحویوں نے کلمہ کے آخری حرف پر توجہ دینے کے ساتھ عربی زبان کے مختلف تراکیب اور أسالیب جیسے جملہ مفیدہ غیر مفیدہ، جملہ اسمیہ وفعلیہ، خبریہ وانشائیہ، شرط وجزاء اور نداء وتحذیر وغیرہ پر کام کیا ہے۔ عربی زبان کے اندر کوئی بھی ایسا جملہ یا اسلوب نہیں ہے جس کی نشاندہی نحویوں نے نہ کی ہو۔ اس کی سب سے بڑی دلیل سیبویہ کی کتاب ہے، جس کے اندر اعراب کے تمام مظاہر کو عربی زبان کے مختلف اسالیب کے ذریعے بیان کیا ہے۔
عربی زبان کی حفاظت کا تیسرا وسیلہ معاجم کی کتابیں ہیں، ان کتابوں میں فصیح الفاظ بیان کرنے کے ساتھ ان کے استعمال کا صحیح طریقہ بیان کیا ہے، کون سا لفظ کس اسلوب اور پیرایے میں استعمال ہونا چاہیے اس کی نشاندہی کی ہے۔ عربی نصوص: نظم ونثر سے لفظ کی صحت پر استدلال کیا ہے، پس وہ عربی زبان جسے احتجاج واستشہاد کی زبان کہا گیا ہے قدیم علماء نے اسے کتابوں میں ‌محفوظ کردیا ہے، اس کے ‌علاوہ اب تک جو بھی عربی زبان پر کام ہوا ہے، وہ اسی کا امتداد اور تسلسل ہے، بلکہ فصیح استشہاد کی زبان کا احیا ہے۔
عامی زبان:
عربی عامی زبان وہ ہے جس کا کوئی قاعدہ وقانون نہیں ہے، جو اس وقت بلاد عربیہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ جسے صرف عرب کے لوگ ہی سمجھتے ہیں، بلکہ ایک ملک کی عامی زبان دوسرے ملک والوں کے لیے سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ عامی آئی کہاں سے؟ اور کس طرح عرب معاشرے پر اپنا پنجہ اس طرح گاڑ دیا کہ عربوں کے لیے اس سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے؟ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی زبان پر عامی آجاتی ہے اس کے اسباب کیا ہیں؟
یوں تو عربی عامی زبان کی بنیاد ہمیں زمانۂ جاہلیت ہی سے ملتی ہے‌۔ فقہ اللغہ کی کتابوں میں اس وقت کے خاص لہجہ کو ’ عیوب اللسان‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عنعنۃ تمیم، کشکشۃ ربیعہ، کسکسۃ ہوازن، تضجع قیس، عجرفیۃ ضبہ اور تلتلۃ بہراء جیسی اصطلاحیں زبان کی انھی عیوب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ نیز زمانہ جاہلیت میں دو طرح کی زبان رائج تھی، ایک خاص لوگوں کی زبان جسے اس وقت کے شعراء، ادباء اور خطباء استعمال کرتے تھے، جسے وہ شعر وسخن کی محفلوں اور بازاروں میں پیش کرتے تھے، جسے سیکھنے کے بعد ایک دوسری پر فخر کرتے تھے، یہی قریش کی زبان تھی اور اسی میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔
دوسری عام لوگوں کی زبان، جسے عربی کتابوں میں لہجات سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ قبیلہ کے لحاظ سے مختلف ہوا کرتی تھی، ایک قبیلے کا لہجہ دوسرے قبیلہ سے جداگانہ اور مختلف ہوتا تھا۔ اس کی دلیل ذیل کے واقعات ہیں:
(۱)اصمعی سے منقول ہے کہ دو لوگوں نے لفظ ’الصقر‘ کے تلفظ میں اختلاف کیا، ایک نے اسے الصقر پڑھا، دوسرے نے اسے السقر پڑھا، پھر وہاں سے ایک تیسرے شخص کا گزر ہوا، تو انھوں نے اس سے صحیح تلفظ دریافت کیا، اس نے کہا کہ میں تو اسے ویسے نہیں پڑھتا ہوں جیسے تم پڑھتے ہو، میں اسے الزقر پڑھتا ہوں۔
(۲)حروف مضارعہ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے، جیسے: تَتَقی اللہ کو تِتَقی اللہ اور تَعْلَم کو تِعْلَم یعنی تاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
قبیلہ قیس، تمیم اور اسد وغیرہ نے تاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اہل حجاز اور بعض دوسرے قبائل جیسےہوازن وازد سراۃ نے تاء کے فتح ساتھ پڑھا ہے۔
(۳)اہل حجاز نے تَخِذْت ووَخِذت، پڑھا ہے اور تمیم کے یہاں اسی معنی کے لیے اتخذت ہے۔
مذکورہ بالا مثالیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اس وقت کے عرب قبائل کے لہجے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہ اس وقت کی دوسری یعنی عامی زبان تھی۔ اسی دوسری قسم کی زبان سے استدلال کرتے ہوئے بہت سے مستشرقین اور بعض اہل مغرب کی پیروی کرنے والے علماء عرب نے موجودہ عامی زبان کی تائید کی ہے۔
حالانکہ یہ استدلال سرے سے غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے زمانہ جاہلیت کے قبائل کے لہجے کو فصیح کے زمرے میں رکھا گیا ہے، یعنی اس وقت کی عامی زبان بھی فصیح تھی۔ قرأت سبعہ اور قرأت عشرہ دراصل لہجوں کا اختلاف ہی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس وقت دو طرح کی زبان تھی: ایک فصیح جو عام لوگوں کی زبان تھی، دوسری افصح جو اس وقت کی منتخب اور چنیدہ زبان تھی اور یہی قریش کی زبان تھی جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا ہے۔
عربوں کا سلیقہ کلام( فطری زبان) بدلتے زمانہ کے ساتھ بدلنے لگا تھا، چنانچہ اسلامی دور ہی میں لوگوں کے کلام میں غلطیوں کا ظہور ہونے لگا تھا، اس کی بہت سی دلیلیں ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک صحابی نے غلطی کی تو آپ نے ان کی اصلاح کی جانب توجہ مبذول کرائی فرمایا:
ارشدوا أخاکم فقد ضل

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کی غلطی نہ دیکھی گئی اور اسے ٹوکے بغیر نہ رہ سکے:
والله لخطأكم في لسانكم أشد من خطأكم في رميكم

فتوحات اسلامی کے پھیلاؤ کے سبب عربوں میں عجمی عناصر کا دخول بھی کچھ آسان ہوگیا تھا، عجمی عناصر عربوں کے سلیقۂ کلام پر جتنا ہو سکا اثر انداز ہوئے۔ اس طرح ان کی فطری زبان اس قدر بدل گئی کہ لحن کا صدور ایک عام سی بات ہوگئی، پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ جو فصیح زبان بولتے تھے انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا:
أربعة لم يلحنوا في جد ولا هزل، عبد الملك بن مروان، والحجاج بن يوسف، وابن القرية، والشعبي، والحجاج أفصحهم

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لوگوں کی زبان میں لحن جیسے جیسے عام ہونے لگا، زبان کے ماہرین نے معاشرے پر وقوع پذیر ہونے والی اس بیماری کے سد باب کی طرف خاطر خواہ توجہ دی۔ اسے روکنے اور اس پر قدغن لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، چنانچہ اس سلسلے میں بہت سی کتابیں وجود میں آئیں، جن میں اہم درج ذیل ہیں:
ما تلحن فيه العامة از کسائی، إصلاح المنطق از ابن السکیت، أدب الكاتب از ابن قتیبہ الدینوری، درة الغواص از الحریری، التکملۃ از جوالقی، تقويم اللسان از ابن الجوزی، لحن العوام از ابو بکر الزُبَیْدی اور تثقيف اللسان از ابن مکی الصقلی۔

ان کتابوں میں جہاں لوگوں کے کلام میں غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، وہیں اس کا متبادل فصیح وصحیح لفظ کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ کتابیں عام لوگوں کی غلطیوں پر تو مشتمل ہیں مگر درس حدیث (نئی تحقیق) ان کو زبان کی تطویر وترقی میں اہم مصادر ومراجع گردانتی ہے۔
مرور ایام کے ساتھ عربوں کی زبان میں اس قدر تغیر پیدا ہوا کہ وہ اصلی اور فصیح عربی زبان سے بہت دور ہو گئے اور چودہ سو سال کے طویل وقفہ میں لسانی تبدیلی نے انھیں اس حالت میں پہنچا دیا کہ فصیح عربی سیکھے بغیر وہ فصیح زبان نہیں بول سکتے۔
اب ہم اس نتیجے پر بآسانی پہنچ سکتے ہیں کہ عربوں میں موجودہ عامی زبان فصیح عربی کی بگڑی ہوئی صورت‌ ہے مزید بر آں اس میں عجمی اثرات بھی شامل ہیں، پھر رہی سہی کسر نت نئے موجودہ تہذیب وثقافت نے پوری کردی ہے۔
آج بھی گاؤں دیہات میں ایسے عرب قبائل موجود ہیں جنھوں نے اپنی ثقافت وکلچر کو بہت حد تک محفوظ رکھا ہے، ان کی زبان میں آپ کو فصیح کلام کے اثرات نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔
موجودہ عامی زبان کے حوالے سے دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ لوگ جو نہ صرف فصیح عربی بولتے ہیں بلکہ اس کی نشر واشاعت کے لیے جی توڑ محنت بھی کرتے ہیں اور عامی کو عام لوگوں تک یا روز مرہ کی گفتگو تک ہی محدود رکھنے کے قائل ہیں۔ یہ عربوں کا پڑھا لکھا طبقہ ہے جس میں علماء وطلبہ، حکومتی طبقہ اور عوام کی اکثریت شامل ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا نظریہ یہ ہے کہ عامی زبان نہ صرف عام گفتگو کے لیے مؤثر مفید ہے بلکہ وہ تعلیم وثقافت، منبر ومحراب اور تألیف وتصنیف کی زبان بننے کی قابل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عربی کو لاطینی خط میں لکھا جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو فصیح عربی کو عربوں کے لیے زوال وادبار کا سبب بتاتے ہیں، کہتے ہیں کہ فصیح عربی موجودہ ترقی یافتہ زمانہ کے ساتھ نہیں چل سکتی، نت نئے اصطلاحات اور ایجادات کی تعبیر نہیں کرسکتی۔
فصیح عربی کی جگہ عامی زبان لانے کی قیادت کرنے والوں میں بہت سے نام مستشرقین کے ہیں، ان کے علاوہ وطن عربی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مستشرقین اور اہل مغرب کے خوشہ چین ہیں اور اپنے آقاؤں کے اشارے پر دم ہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جن کے جسم تو عرب میں ہیں مگر قلوب واذہان مغرب کی طرف ہیں، ان میں کچھ معروف نام یہ ہیں: سلامہ موسی، عبد العزیز فہمی، انیس فریحہ، سعید عقل وغیرہ۔
اس میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو پوشیدہ طور پر صحافت اور میڈیا کے میدان میں رہ کر عامی زبان کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔
ہر چند کہ ان کا مقصد بہت چھوٹا لگ رہا ہے مگر یہ کہ اس کے پیچھے بہت بڑے خطرناک مقاصد کارفرما ہیں۔ (قد بدت البغضاء من أفواهم وما تخفي صدورهم أكبر) یہ دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ عربوں کو ان کی قدیم تہذیب و تراث سے دور کردیا جائے، ان میں جہالت کو اس طرح فروغ دیا جائے کہ آخر کار وہ اسلام ہی سے دور ہوجائے، قران وحدیث اور شریعت اسلامیہ سمجھنے کے قابل نہ رہ جائے۔
اس سلسلے میں مشہور ادیب ڈاکٹر طہ حسین نے بہت ہی اہم بات کہی ہے، وہ کہتے ہیں ’’ میں عامی لہجہ کی طرف دعوت دینے والے اپنے ادباء کی توجہ ایک اہم چیز کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا، مجھے نہیں لگتا کہ انھوں نے اس سلسلے میں اچھی طرح غور وفکر کیا ہے، وہ یہ کہ اس وقت عالم عرب اور بہت سے مشرقی ممالک کے لوگ فصیح عربی سمجھتے ہیں، عربی ان کی مافی ضمیر کو ادا کرنے اور دور دراز کے علاقوں تک رابطہ کا ذریعہ ہے، ہمیں عامی لہجہ کی ہمت افزائی کرنے سے ڈرنا چاہیے، اسی طرح اسے لاطینی خط میں لکھنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ ہر ملک اور ہر علاقہ والے جتنی اپنی اپنی زبان ولہجہ کی طرف توجہ دیں گے اتنا ہی وہ دوسرے ملک و علاقہ کی زبان سے دور ہو جائیں گے۔ پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ مصریوں کو اہل سیریا، لبنان اور اہل عراق کی کتابیں سمجھنے کے لیے مترجموں کو بلانا پڑے گا، اسی طرح سیریا، لبنان اور عراق والے بھی مصریوں کی کتابیں سمجھنے کے لیے مترجم کے محتاج ہوں گے۔ جس طرح فرانس والے اٹلیوں اور اسپینیوں کو سمجھنے کے لیے ترجمہ کراتے ہیں، اسی طرح فرانس والے بھی اٹلیوں اور اسپینیوں کو نہیں سمجھ پاتے اور مترجمین کی مدد لیتے ہیں ۔‘‘
أعداء اسلام عربی زبان کو ختم کرنے کی کتنی ہی کوششیں کرلیں مگر انھیں کامیابی نہیں ملے گی؛ کیونکہ رب ذو الجلال نے ’’ إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون‘‘ کہہ کر قرآن کی حفاظت کے ساتھ عربی زبان کی حفاظت کا ذمہ بھی اپنے سر لے لیا ہے۔ پس جس طرح قرآن کریم قیامت باقی رہے گا اسی طرح فصیح عربی زبان بھی قیامت تک محفوظ رہے گی۔
وصلى الله على نبينا وسلم تسليما كثيرا

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
نور عالم محمد ابراہیم

ماشاء اللہ، تبارک اللہ!
بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے۔