سنا ہے وہ بھی کہیں ہاتھ جوڑ آئے ہیں

سراج عالم زخمی شعروسخن

روایتوں کی صفیں آج موڑ آئے ہیں

پرانے عشق کے پیمانے توڑ آئے ہیں


ہم اپنے ساتھ بھلا اس کی یاد کیا لاتے

ہم اپنا آپ کہیں اس میں چھوڑ آئے ہیں


ذرا سکون سے مرنے کا وقت آیا تھا

وہ حال پوچھ کے پھر سے جھنجھوڑ آئے ہیں


جناب شیخ تو کرتے ہیں انقلاب کی بات

سنا ہے وہ بھی کہیں ہاتھ جوڑ آئے ہیں


امیر شہر ترے کاغذی چراغوں میں

غریب لوگ جگر بھی نچوڑ آئے ہیں


وہ اک بھرم تھا کہ دنیا میں جی رہے ہیں ہم

سوا خدا وہ بھرم توڑ پھوڑ آئے ہیں


شکم کی آگ بجھانے کے واسطے زخمیؔ

ہم اپنے گاؤں میں دنیا ہی چھوڑ آئے ہیں

آپ کے تبصرے

3000