کوئی آئے تو مجھے مجھ میں اٹھا کر رکھ دے

سراج عالم زخمی شعروسخن

اچھے اچھوں کو بھی دیوانہ بنا کر رکھ دے

عشق جب جس کو جہاں چاہے نچا کر رکھ دے


ایک مدت سے ہوں بکھرا ہوا صحرا کی طرح

کوئی آئے تو مجھے مجھ میں اٹھا کر رکھ دے


ٹوٹ جاتے ہیں مری جان کھلونے کی طرح

دل کسی اور ہی بستی میں چھپا کر رکھ دے


بے وفائی، وہ بلا چین سے مرنے بھی نہ دے

ہجر، وہ غم ہے کہ بنیاد ہلا کر رکھ دے


تو جو چاہے تو غزل میری مکمل کر دے

اپنے ہونٹوں کو مرے ہونٹ پہ لاکر رکھ دے


کام آئیں گے کبھی درد کے موسم میں سراجؔ

کچھ نہ کچھ اشک ہی آنکھوں میں بچا کر رکھ دے

آپ کے تبصرے

3000