قدیم عربی کتابیں جنھیں ہم معجم یا قاموس کہتے ہیں

عبدالرحمن شہاب الدین شادی عربی زبان و ادب

قدیم عربی کتابیں جنھیں ہم معجم یا قاموس کہتے ہیں کیا انھیں معجم یا قاموس کہنا صحیح ہے؟
وہ کتاب جس میں کسی زبان کے الفاظ اور اس کے مفردات کو خاص انداز میں مرتب کیا گیا ہے، ساتھ ہی اس کے معنی ومفہوم کو بیان کیا گیا ہے اس کتاب کو عموما عربی میں معجم یا قاموس، اردو میں لغت اور انگریزی میں ڈکشنری کہا جاتا ہے۔ لیکن وہ کتابیں جن میں عربوں کا کلام جمع کیا گیا ہے، جس کے اندر بیان کی گئی زبان کو استشہاد کی زبان کہا جاتا ہے اور یہ کتابیں خلیل الفراہیدی کی کتاب العین سے لے کر تاج العروس تک محدود ہیں۔ تو کیا ان کتابوں کو معجم یا قاموس کہنا درست ہے؟ زیر نظر مضمون اسی شبہ کو دور کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جن کتابوں پر ہم معجم یا قاموس کا اطلاق کرتے ہیں جیسے کتاب العین از خلیل، کتاب جمھرۃ اللغہ از ابن درید، کتاب تہذیب اللغۃ از ازہری، کتاب الجیم از الشیبانی اور اس سلسلے کی آخری کڑی کتاب تاج العروس ہے۔ ان کتابوں کو ہم معجم کہہ سکتے ہیں نہ قاموس، اس کے بہت سے اسباب و وجوہات ہیں:
۱۔ایک وجہ یہ ہے کہ ان مصنفین میں سے کسی نے بھی اپنی کتاب کو معجم یا قاموس سے موسوم نہیں کیا ہے۔ بطور دلیل ان کتابوں کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
ابن درید فرماتے ہیں:
فارتجلت الْكتاب الْمَنْسُوب إِلَى جمهرة اللُّغَة، وابتدأت فِيهِ بِذكر الْحُرُوف الْمُعْجَمَة الَّتِي هِيَ أصل تفرع مِنْهُ جَمِيع كَلَام الْعَرَب
( جمھرۃ اللغہ:۱/۴۰) یعنی میں نے نئی کتاب تیار کی ہے جو عام زبان کی طرف منسوب ہے، جس کی ابتدا میں نے حروف معجم سے کی ہے، جو کہ اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور جس سے تمام عربوں کا کلام ماخوذ ہے۔
ابن منظور فرماتے ہیں:
جمعت هَذَا الْكتاب فِي زمنٍ أهلُهُ بِغَيْر لغته يفخرون، وصنعته كَمَا صنع نوحٌ الفلكَ وقومُه مِنْهُ يسخرون، وسميته لسانَ الْعَرَب
( لسان العرب کا مقدمہ:۱/۸)یعنی میں نے اس کتاب کو ایسے زمانے میں جمع کیا ہے جس زمانہ کے لوگ دوسروں کی زبان پر فخر کرتے تھے اور اسے اس طرح تیار کیا ہے جس طرح نوح علیہ السلام نے کشتی تیار کی تھی اس حال میں کہ ان کی قوم کے لوگ ان سے مذاق کر رہے تھے۔
فیروزآبادی کہتے ہیں:
وَسَمَّيْتُهُ “الْقَامُوسَ الْمُحِيطَ ” لِأَنَّهُ الْبَحْرُ الْأَعْظَمُ
(القاموس المحیط:۱/۲۷) یعنی میں نے اس کا نام القاموس المحیط رکھا اس لیے کہ وہ بحر اعظم ہے۔
۲۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی تالیف کا مقصد معاصرین کے معاجم اور قوامیس کے مقصد سے بالکل الگ ہےاور اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱)ان قدیم علماء کا مقصد عربی الفاظ واسالیب کو جمع کرنا تھا، اسی لیے ان کی تالیف میں اس زمانے کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے، ان کتابوں کی تالیف کا مقصد مشکل لفظ کے معانی، شرح اور تفسیر دیکھنا نہیں ہے۔چنانچہ عربی زبان کے ماہر ڈاکٹر محمد بن یعقوب الترکستانی فرماتے ہیں:
لم بهدف القدامى إلى وضع متن العربية لتكون أداة بحث عن تفسير الكلمات العربية فحسب، ولم يريدوا أن تكون مرجعا يعرض للغة الحية الواقعية التي يستعملها الناس وما يتخاطبون به من ألفاظ الحضارة والعلم، وما يولدونه ويعربونه ويرتجلونه وقتا بعد وقت، ولم يستخدموا كلمة معجم عنوانا لأي من كتبهم هذه، بل وضع كل منهم عنوانا يعلن عن هدفه الخاص من كتابه؛ لأن كل كتبهم تهدف تفسير وشرح وضبط وتوثيق ألفاظ العربية

یعنی قدیم علماء نے ان کتابوں (معاجم) کو اس لیے نہیں لکھا تاکہ وہ عربی الفاظ کے معانی دیکھنے کے لیے وسیلہ بنیں اور نہ ہی ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ کتابیں مولد ومعرب الفاظ، وقتا فوقتا وجود میں آنے والے الفاظ، سائنس اورنئی تہذیب کے ذریعہ پیدا ہونے والے الفاظ جن سے لوگ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں اور موجودہ زمانے کے نئے الفاظ کے لیے مرجع بنیں، نہ انھوں نے لفظ معجم کو ان کتابوں کے لیے عنوان کے طور پر استعمال کیا بلکہ ہر کتاب کے لیے ایک الگ عنوان قائم کیا جو خاص مقصد کو واضح کرتا ہے، اس لیے کہ ان کی ہر ایک کتاب کا مقصد الفاظ کی شرح وتوضیح، ضبط اور الفاظ کی صحت کو ثابت کرنا ہے۔
(۲)ان کتابوں کی تالیف کا مقصد خالص دینی ہے یعنی قرآن وحدیث اور اسلامی شریعت کی زبان کی خدمت کرنا، جبکہ موجودہ معاجم وقوامیس کا مقصد بذات خود زبان کی خدمت کرنا ہے، دین سے اس کا سروکار نہیں ہے۔
(۳)اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لفظ معجم وقاموس اپنے جدید معنی میں ترجمہ کی پیداوار ہے، یعنی دوسری زبان جیسے انگریزی وفرنسی زبان میں لکھی گئی ڈکشنریوں کا اعتبار کرتے ہوئے یہ دونوں مصطلح لیے گئے ہیں یا بنائے گئےہیں۔
(۴)ایک وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کا ماخذ ومصدر زمانہ جاہلیت اور دور اسلام میں نشوونما پانے والے عربوں کا کلام ہے، جبکہ موجودہ معاجم وقوامیس کا مصدر وہ تمام عربی زبان ہے جو آثار قدیمہ کے ذریعہ دریافت کی گئی زبان سے لے کر اب تک مستعمل ہے۔
(۵)ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کتابوں کو معجم یا قاموس کہنے سے مستشرقین اور جو لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں ان کے لیے اعتراض کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، چنانچہ ان کتابوں میں سے کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جو ان کی بے جا تنقید سے محفوظ ہو۔ اور تنقید کا یہ سلسلہ احمد فارس الشدیاق سے شروع ہوتاہے اور آج تک جاری ہے۔
احمد فارس نے اپنی کتاب ’الجاسوس علی القاموس‘ میں اس طرح کی تمام قدیم کتابوں کو عموما اور ’القاموس المحیط‘ کو خصوصا ہدف تنقید بنایا ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ الجاسوس کی مدح وثنا کرنے والوں کا بھی ایک لمبا سلسلہ ہے‌۔
خلاصۂ کلام یہ کہ ان عربی کتابوں کو جن میں عربی الفاظ کو تفسیر وتشریح کے ساتھ جمع کیا گیا ہے، قرآن وحدیث کے نصوص سے استدلال کیا گیا ہے، جن میں نحوی، صرفی صوتی اور لسانی مسائل ذکر کیے گئے ہیں، جس کا سلسلہ خلیل کی کتاب عین سے شروع ہوتا ہے اور زبیدی کی کتاب تاج العروس پر آکر ختم ہوتا ہے، ان کتابوں کو معجم وقاموس کہنا غلط ہے۔ اور یہ ایسی غلطی ہے جس میں بڑے بڑے علماء اور زبان کے ماہرین بھی گرفتار ہیں۔البتہ ان کتابوں کے علاوہ جو کتاب اہل مغرب کی ڈکشنریوں کے طرز پر تیار کی گئی ہے اسے معجم یا قاموس کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوگا کہ تب ان کتابوں کو کیا کہیں؟ کیا نام دیں؟تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے ان کتابوں کو انھی نام سے پکاریں جو ان کے مؤلفین نے دیے ہیں اور لفظ معجم کی جگہ لفظ کتاب کا استعمال کریں جیسے کتاب العین، کتاب تہذیب اللغہ، کتاب الجیم اور کتاب الجمھرہ وغیرہ۔ڈاکٹر محمد بن یعقوب الترکستانی ان کتابوں کو ’کتب متن اللغہ‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا

آپ کے تبصرے

3000