دل سے اٹھی جو آہ غزل تک پہنچ گئی

سراج عالم زخمی شعروسخن

سینے کی آگ راگ محل تک پہنچ گئی

دل سے اٹھی جو آہ غزل تک پہنچ گئی


ذرے کو آفتاب بنا کر اچھال دوں

جرأت تو میری آج زحل تک پہنچ گئی


ہر پیار کے نصیب میں شاہ جہاں کہاں

ممتاز تھی جو تاج محل تک پہنچ گئی


اب زندگی بھی اپنی حدوں میں نہیں رہی

دیکھو تو کیسے کیسے اجل تک پہنچ گئی


ماضی کا ایک عکس مرے آئینے میں ہے

جو بات کل تلک تھی وہ کل تک پہنچ گئی


مجھ کو تو اک انار کلی سے ہوا تھا پیار

اتنی سی بات راج محل تک پہنچ گئی


مجھ کو تو عشق وشق بھی افواہ سی لگے

رخ کی تھی بات اور کنول تک پہنچ گئی

آپ کے تبصرے

3000