قرآن مجید کی تفسیریں مختلف انداز کی لکھی گئی ہیں:
(۱)تفسیر ماثور جس میں احادیث اور آثار کی روشنی میں تفسیر بیان کی جاتی ہے۔
(۲)متکلمانہ تفسیر جس میں عقل کی روشنی میں قرآن کی تفسیر کی جاتی ہے۔
(۳)فقہی تفسیر جس میں قرآن کے احکام ومسائل پر مشتمل آیتوں کی تفسیر ہوتی ہے۔
(۴)صوفیانہ تفسیر جس میں صوفیا کے اشارات اورنکتے بیان کیے جاتے ہیں۔
(۵)ادبی ولسانی تفسیر جس میں عربی زبان کے قواعد واعراب اور ادبی اسلوب کے بیان پر توجہ دی جاتی ہے۔
(۶)قصص قرآن پر مشتمل تفسیر جس میں قرآن میں مذکور قصوں کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔
تفسیر ماثور میں ابن جریر طبری، ابن ابی حاتم، ابن المنذر اور ابن مردویہ کی تفسیریں مشہور ہیں۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ کسی آیت سے متعلق کوئی حدیث یا صحابی وتابعی کا قول ہے تو وہ اپنی سند کے ساتھ اسے بیان کرتے ہیں۔ یہ سندیں کچھ صحیح ہوتی ہیں کچھ ضعیف،اقوال بھی کبھی قابل قبول ہوتے ہیں اور کبھی قابل رد،ان میں ایک لفظ کی تفسیر کے لیے دوتین چار سطر کی سند کے ساتھ ہرصحابی یا تابعی کا قول نقل کیا جاتاہے خواہ اس میں کتنا ہی تکرار ہواور خواہ وہ قول ان سے ثابت ہویا ثابت نہ ہو۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل کی تفسیر میں اسراء ومعراج سے متعلق جتنی مختلف احادیث وآثار موجود ہیں سب سند کے ساتھ مذکور ہوں گی جب کہ وہ باہم متعارض اور ان میں سے بہت سی روایات ضعیف ہوتی ہیں اور محدثین کے نزدیک ثابت نہیں۔ اسی بناپر بعد میں آنے والے علماء مفسرین نے ان میں سے چھانٹ کر صحیح اور قابل قبول روایات جمع کرکے اختصار کے ساتھ ہر آیت کی تفسیر میں ان پچھلی تفاسیر (طبری، ابن ابی حاتم… وغیرہ) سے جمع کردیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کو سہولت ہو۔ تکرار سے نجات مل جائے، ضعیف اور موضوع روایت سے لوگ متاثر نہ ہوں۔ لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ سلف صالحین سے جو مختلف تفسیریں ایک آیت کی بیان کی جاتی ہیں سب صحیح ہیں توباہم متعارض کیوں ہیں۔ امام ابن کثیر نے آٹھویں صدی ہجری میں ان تفسیروں اور حدیث کی کتابوں سے صحیح اور حسن احادیث وآثار منتخب کرکے جمع کردیے ہیں۔ اس لیے ان کی تفسیر سب سے زیادہ معروف، متداول اور قابل استفادہ ہے،اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے اور واقعی یہ تفسیر قابل ترجمہ تھی۔
مگر ابن جریر طبری اور تیسری چوتھی صدی ہجری کے دوسرے مصنفین کی تفسیریں روایات کی جمع وتدوین کے سلسلے میں تواہم ہیں مگر جب تک ان روایات کی تحقیق کرکے یہ نہ دیکھا جائے کہ یہ ثابت بھی ہیں یا نہیں، انھیں پڑھ کر عام قاری کو (خواہ وہ عرب کیوں نہ ہو) طرح طرح کے شکوک وشبہات پیداہوں گے:
۱۔وہ سمجھے گا کہ یہ روایات سب صحیح ہیں کیوں کہ ابن جریر طبری نے انھیں ذکر کیاہے۔ جبکہ انھوں نے سندیں ہرہر روایت کی اسی لیے دی ہیں کہ ان کی تحقیق کی جاسکے۔
۲۔وہ صحابہ وتابعین کی طرف سے بدظن ہوگا کہ ایک آیت کی تفسیر کے سلسلے میں بھی ان کے اندر اتفاق نہیں۔ جبکہ اکثر وہ مختلف روایتیں ہی پایۂ ثبوت کونہیں پہنچتی ہیں پھر یہ بدظنی بے جاہے۔
۳۔بہت سی صحیح احادیث جو رسول اللہﷺ سے تفسیر کے باب میں دیگر کتب حدیث میں موجود ہیں، ان کا ابن جریر طبری نے ذکر نہیں کیا ہے۔ امام بخاری، ابن کثیر وغیرہ نے ان صحیح احادیث کا تذکرہ کیاہے۔ لہٰذا صرف طبری پر اعتماد کرنے کایہ بھی ایک نقصان ہے۔
۴۔طبری نے الفاظ کے معانی، آیات کے اعراب، مختلف قراء ات کی توجیہ وغیرہ کے سلسلے میں عربی زبان وادب اور شعروبلاغت کی بعض بہت ہی دقیق اور باریک بحثیں چھیڑی ہیں جوان فنون کے ماہرین کے علاوہ کسی عام قاری کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ خواہ وہ کوئی عرب ہی کیوں نہ ہو۔ پھر کسی غیر عربی دان کےلیے ان مباحث کا ترجمہ کسی صورت مفید نہیں ہوگا۔ طبری نے جگہ جگہ فرَّاء اور دوسرے نحویوں کی تردید کی ہے وہ نحویوں کے علاوہ کسی قاری کے پلے نہیں پڑے گا۔
۵۔ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں احادیث وآثار ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی اسرائیلیات اور قصہ کہانی کی چیزیں یہود ونصاری کی کتابوں سے لے کر نقل کردیا ہے جو بے سروپاہیں۔ رسول اللہﷺ نے اہل کتاب کی روایات کی تصدیق سے منع کیا ہے۔ اب جو شخص ان اسرائیلیات کو تفسیر طبری میں پڑھے گا وہ سمجھے گا کہ سب صحیح ہیں۔ انبیاء کے قصوں میں بہت سی بے سروپا باتیں یہودیوں نے بیان کی ہیں ابن جریر طبری اور دوسرے مفسرین نے یہ سب نقل کردیا ہے۔ بلکہ بعض چیزیں تو بالکل مخالف قرآن اور مخالف حدیث ہیں۔
مثلاً طبری کا کہنایہ ہے کہ ذبیح اسحاق علیہ السلام ہیں اسماعیل علیہ السلام نہیں، یہودیوں کی روایات سے متاثر ہونے کا یہ نتیجہ ہے۔ ورنہ خود قرآن کے اسلوب بیان اور صحیح وصریح احادیث سے اسماعیل علیہ السلام کا ذبیح ہونا اظہر من الشمس ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں تفسیر طبری سے موسیٰ علیہ السلام ، داود علیہ السلام، آدم علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام وغیرہ سے متعلق پیش کی جاسکتی ہیں یہ سب اسرائیلیات اور یہودی روایات نقل کرنے کا نتیجہ ہیں۔
۶۔طبری نے تفسیر کے علاوہ تاریخ بھی لکھی ہے۔ جس میں ہر طرح کی بے سروپا روایات درج کی ہیں۔ اس کے شروع میں لکھا ہے کہ ان روایات کے سلسلے میں قاری کو تحقیق کرکے دیکھ لینا چاہیے اور انھیں نقل کرنے سے پہلے چیک کرلینا چاہیے۔ اور ہمیں الزام دینے کے بجائے روایات بیان کرنے والوں پر جرح کریں۔ ہم نے تو سند دے کر اپنے آپ کو بریٔ الذمہ کرلیا ہے۔ یعنی طبری تفسیر اور تاریخ میں سنہ دینے کی وجہ سے قابل ملامت نہیں۔ لیکن بلا تحقیق ان روایات کو قبول کرنے والے اور ان سے استدلال کرکے عہد نبوی اور صحابہ و تابعین کے بارے میں بالکل جھوٹی اور بے سروپا باتیں کرنے والے قابل مؤاخذہ ہیں۔ شیعوں نے اسی پر اعتماد کرکے صحابہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب انھیں کچھ کہا جاتاہے تو کہتے ہیں کہ طبری جو شیخ المؤرخین ہیں انھوں نے ایسا لکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی کتابیں بلا تحقیق روایت وسند پڑھنا عام لوگوں کے لیے سخت مضر ہے۔ علماء ہی کھرے کھوٹے کی تمیز کرکے اس طرح کی کتابوں کو استعمال کرسکتے ہیں۔ عام قاری (خواہ عرب ہی کیوں نہ ہو) اس کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسے تو صرف صحیح حدیث کی کتابیں اور صحیح آثار صحابہ وتابعین پر مشتمل مجموعے ہی پڑھنا چاہیے تاکہ خواہ مخواہ اس کے ذہن میں شکوک وشبہات نہ پیدا ہوں۔
آج کل لوگ سمجھتے ہیں کہ ترجمے کے ذریعہ پچھلی تمام کتابوں سے استفادہ کیا جاسکتاہے چنانچہ ایسی کتابوں کے ترجمے کی کوشش ہوئی جو خالص فنی مباحث پر مشتمل ہیں، اور اصطلاحات سے واقفیت، عربی زبان وادب میں مہارت اور محدثین کے طریقۂ تحقیق وتنقید کو سمجھے اور برتے بغیر ان سے استفادہ ممکن نہیں۔ اورنہ ہی ان کے ترجمے کا کوئی فائدہ ہے۔ ناشرین بڑی بڑی کتابیں ترجمے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ معمولی عربی اردو جاننے والے سے ترجمہ کروا لیتے ہیں جو بے شمار اغلاط اور تحریفات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور انھیں چھاپ کر پیسے کماتے ہیں۔ لغت کی کوئی کتاب (جیسے لسان العرب، تاج العروس) ادب کی بڑی کتابیں (جیسے الاغانی، العقد الفرید، الکامل للمبرد… وغیرہ)، رجال کی کتابیں (جیسے: التاریخ الکبیر، الجرح والتعدیل، الثقات، تہذیب الکمال،تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، لسان المیزان…)، موضوع احادیث کی کتابیں (جیسے: موضوعات ابن الجوزی)، تفسیر کی بڑی کتابیں (جیسے: تفسیر طبری، قرطبی، کشاف، ثعلبی، رازی…)، شروح حدیث کی بڑی کتابیں (جیسے: فتح الباری، التمھید، عمدۃ القاری، عون المعبود،تحفۃ الاحوذی…)، تذکرہ وسوانح کی کتابیں (جیسے: سیر اعلام النبلاء، الوافی بالوفیات، معجم الادباء، وفیات الاعیان…)، فقہ کی بڑی کتابیں (جیسے: الأم للشافعی، المعلی لابن حزم، المجموع للنووي، المغنی لابن قدامہ، حاشیۃ ابن عابدین، الفتاوی الہندیہ، فتح القدیر شرح ہدایہ…)، حدیث کی بڑی کتابیں (جیسے: مسند احمد، مسند البزار، معجم کبیر طبراني، کنز العمال،مجمع الزوائد، جامع الاصول…)، اطراف حدیث وعلل حدیث کی کتابیں (جیسے: تحفۃ الاشراف للمزی، اتحاف المھرۃ لابن حجر، العلل للدار قطنی، العلل لابن ابی حاتم…)، نحووصرف وبلاغت کی بڑی کتابیں (جیسے: الکتاب لسیبویہ، شروح التلخیص…)، سیرت نبوی اور صحابہ کے حالات پر بڑی کتابیں جو رطب ویابس پر مشتمل ہیں (جیسے: سبل الہدی والرشاد، الاصابہ لابن حجر، اسد الغابہ…) علم کلام کی بڑی کتابیں (جیسے: شرح المواقف للجرجانی، شرح المقاصد، ابکار الافکار للآمدی…)، تصوف کی بڑی کتابیں (الفتوحات المکیۃ، اتحاف السادۃ المتقین للزبیدی، قوۃ القلوب لأبی طالب المکی…)، فلسفہ کی بڑی کتابیں (جیسے: الشفا لابن سینا، شروح کتب ارسطو لابن رشد…)، طبی موسوعات (جیسے: الحاوي لمحمد بن زکریا الرازي، القانون لابن سینا،التصریف للمجوسي، الشامل لابن النفیس…)، جغرافیائی بڑی کتابیں (جیسے: معجم البلدان، معجم مااستعجم، نزھة المشتاق للشريف الادریسی، صورۃ الأرضی لابن حوقل…)، نسب ناموں کی کتابیں (جمھرۃ النسب لابن الکلبي، جمھرۃ انساب العرب لابن حزم…)، کتابیات اور ببلیوگرافی پر کتابیں (جیسے: کشف الظنون…وغیرہ)، تاریخ پر موسوعاتی کتابیں (جیسے: تاریخ طبری، تجارۃ الأمم، المنتظم لابن الجوزي، مرآۃ الزمان، تاریخ الاسلام للذھبي، البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر، نھایۃ الأرب للنویری…)، انشاء و شعر وادب کی موسوعات (صبح الأعشی، نفح الطیب، خزانۃ الأدب، یتیمۃ الدھر للثعالبی، خریدۃ القصر، الذخیرۃ لابن بسَّام…)، صدی وارتذکرے (الدرر الکامنۃ، الضوء اللامع، الکواکب السائرۃ، خلاصۃ الأثر، سلک الدرر، حلیۃ البشر… وغیرہ)۔ اس طرح کی کتابیں قابل ترجمہ نہیں۔ انھیں اصل صورت میں پڑھنا چاہیے ورنہ مقصد فوت ہوجائے گا اور ترجمے کے ذریعہ پڑھنے والا طرح طرح کی غلط فہمیوں اور وسوسوں کا شکار ہوگا۔
اس لیے گزارش یہ ہے کہ کسی بھی زبان کی وہی کتابیں ترجمہ کے لیے منتخب کی جائیں جن سے قارئین صحیح طورپر استفادہ کرسکیں اور انھیں پڑھ کر محظوظ ہوں اور ان کے علم وفکر میں اضافہ ہو، نہ یہ کہ وہ مزید الجھنوں کا شکار ہوں اور طرح طرح کے وسوسے میں مبتلا ہوں۔ بہت سی اصطلاحات نہ جاننے کی وجہ سے عبارتیں ہی انھیں سمجھ میں نہ آئیں۔ ترجمہ پڑھ کر (تحقیق وتنقید کےبغیر) ساری بے سروپا روایات قبول کرنے کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ ان سے استفادے کی بس یہی شکل ہے کہ اصل عربی کتابیں پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ اصطلاحات سے واقفیت ہو، محدثین کے طریقۂ تنقید کا علم ہو۔ مغربی ممالک میں ان سے استفادہ کی یہی شکل ہے۔ مشرق میں بھی اسی کو اپنانا چاہیے۔ ورنہ ہمارے عربی میراث کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں اور گمراہیاں عام ہوں گی۔ واللہ اعلم
محمد عزیر شمس
مکۃ المکرمۃ ۳؍۱۲؍۲۰۲۰م
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی شیخ محترم کو صحت وعافیت میں رکھے۔
انہوں نے کتب تفسیر اور بالخصوص تفسیر طبری کے حوالے سے جو معلومات نقل کی ہیں،وہ عام قاری اور اہل علم دونوں کے لیے حد درجہ مفید ،اور اردو زبان وادب میں یہ بیش قیمتی معلومات ہیں۔
اللہ جزائے خیر دے بہت اہم نکتہ کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا۔
ترجمہ کے نام پر بہت ساری دکانیں چمکیں۔
ہو سکتا ہے اب خود قارئین ہوش کے ناخن لیں۔ وباللہ التوفیق