یادوں کے کچھ سائے (استاذ گرامی مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی رحمہ اللہ)

ایم اے فاروقی تذکرہ

مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی ہمارے ان اساتذہ میں سے تھے، جن سے بے تکلف ہی نہیں بلکہ بے باک بھی تھا، وجہ یہ تھی کہ آپ ابا (مولانا ابو الخیر فاروقی) کے دوست اور رحمانیہ دہلی کے زمانے کے ان کے ساتھیوں میں سے تھے، مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک اور انتہائی سادہ مزاج تھے، ہماری طالب علمی کے دور تک جامعہ سلفیہ میں طلبا کی تعداد ستر پچھتر سے زیادہ نہیں تھی، لڑکوں کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا، پہلے وہ آزاد صاحب سے رابطہ کرتے۔ مغرب بعد آزاد صاحب، شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید صاحب اور مولانا عابد صاحب کی نشست ہوتی، مولانا محمد رئیس ندوی صاحب آگئے تو وہ بھی اس مخصوص محفل کے رکن بن گئے، شیخ الجامعہ اپنے گھر سے کھانا منگواتے، زیادہ تر مجھے ہی ان کے گھر سے کھانا لانا پڑتا، بچپن ہی سے عبید اللہ طیب (استاذ حدیث جامعہ سلفیہ )کے ساتھ آنا جانا تھا، مجھ سے کسی کا پردہ نہیں تھا،جاتا تو عبید اللہ کی اماں یا مولانا کی اہلیہ ایک گلاس شربت یا چائے ضرور دیتیں۔
مولانا آزاد صاحب نے سلفیہ قائم ہونے سے قبل تین چار مہینہ تک ہم لوگوں کو رحمانیہ میں بھی ۱۹۶۶ء میں پڑھایا تھا، اس وقت کئی بار آپ کے کپڑے دھلنے کا شرف مجھے حاصل ہوا، یاد آرہا ہے کہ آپ کے پاس ایک بڑا مدراسی رومال تھا تھوڑا سا پھٹا ہوا تھا، دھلنے کے دوران اور پھٹ گیا، میں نے رومال کے چار پانچ ٹکڑے کیے اور پھینک دیا، کپڑوں کو سکھا کر لایا تو پوچھنے لگے اجی رومال کہاں گیا؟ میں نے سیدھا سا جواب دے دیا: ’’پھٹا ہوا تھا پھینک دیا‘‘ کچھ کہا نہیں مسکرا کر رہ گئے۔
فقہ کی کتابیں ان سے بہتر کوئی نہیں پڑھا تا تھا، ھدایہ وہی پڑھاتے ، سراجی پڑھانے میں ماہر تھے، حنفیوں کے گندے مسائل شرح وقایہ میں آتے تو ہر چیز کھول کھول کر بتلاتے، مسلم شریف اور ابو داود بھی انھوں نے ہی پڑھایا، جو بھی کتاب پڑھاتے معلوم ہوتا کہ اسی کے وہ اتھارٹی ہیں، پڑھانے میں آپ کی کوشش یہی ہوتی کہ ساری باتیں طلبا کے ذہن میں اتار دیں ، امتحان میں جوابات میں تفصیل چاہتے ، سوال کا جواب جتنی تفصیل سے دیتے اتنا ہی اچھا نمبروہ دیتے۔
ایک بار اساتذہ میں طے ہوا کہ طلبا کو لٹھ بازی کا ہنر بھی سیکھنا چاہیے، صرف دو استاد لٹھ باز نکلے، مولانا شمس الحق صاحب اور مولانا آزاد صاحب، آزاد صاحب کا دعوی تھا چھ مہینہ ہم سے لاٹھی چلانا سیکھو، روز ایک نیا داؤں سکھلاؤں گا، ایک ہفتہ کے بعد سیکھنے اور سکھانے والے دونوں کا جوش سرد پڑگیا۔
مولانا آزاد صاحب ہمیشہ اپنے تخلص سے پکارے گئے، اس میں نہ اساتذہ اور نہ طلبا نے کبھی احترامی کلمہ مولانا یا مولوی کا اضافہ کیا، بس سب کے لیے صرف آزاد صاحب تھے، مولانا کے اوپر سلفیہ میں سب سے زیادہ ذمہ داریاں تھیں تدریس، فتوی نویسی اور بعد میں صوت الجامعہ کی ایڈیٹری ان سب کو بحسن و خوبی انجام دیتے، امتحان کا زمانہ آتا تو آپ کی مصروفیت اور بڑھ جاتی، اس وقت جامعہ میں سائیکلو اسٹائل مشین سے پرچوں کی چھپائی ہوتی، اسٹینسل سے لکھنا اور مشین سے پرچے نکالنا ایک مشکل اور اہم کام تھا۔ مجھے یاد ہے آپ ایک نیم آستین اور چڈھا، جو پاجامے کو کاٹ کر بنا لیتے، اسے پہن کر چھاپتے، ہاتھ روشنائی سے سنے ہوتے، سامنے شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید صاحب کھڑے ان سے محو گفتگو رہتے۔
ایک مثالی مدرس ہونے کے ساتھ آپ اعلی درجہ کے صحافی اور مضمون نگار تھے، احمدیہ سلفیہ میں تھے تو الہدی کی ادارت آپ ہی کے ذمہ تھی ، عصمت بخاری نمبر شان سے نکالا، مضامین میں ادبی چاشنی ہوتی، اہل حدیث اور سیاست کا مقدمہ نیز اپنے استاذ محترم مولانا نذیر احمد املوی کے سوانحی حالات آپ ہی کے لکھے ہوئے ہیں، آپ کا یہ مقدمہ مولانا املوی کی شخصیت کے بارے میں سب سے مستند ماخذ ہے، منہج سلف اور تائید اہل حدیثیت کے بارے میں مولانا املوی کے بعد آپ ہی کا قلم تھا، جس سے مقلدین گھبراتے تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ، قاری عبد الرشید خان جہاں پوری نے دینی ڈائجسٹ کے نام سے ایک رسالہ نکالا تھا، جس کے تین چار شمارے ہی نکل سکے، والد محترم نے اس میں ایک مضمون خواتین کو عید گاہ لے جانے کے بارے میں لکھا تھا، مولانا عامر عثمانی نے اپنی عادت کے مطابق تجلی میں پھلجڑیاں چھوڑ دیں، آزاد صاحب نے ان کا جواب ایسا دیا کہ نہ صرف وہ خاموش ہوگئے، بلکہ معذرت کا خط بھی بھیجا، جو شاید آزاد صاحب کے کسی فائل میں ہو، آزاد صاحب کا مضمون شاید ترجمان میں شائع ہوا۔
طلبا میں جو لکھنے پڑھنے اور شاعری میں دل چسپی رکھتے وہ آزاد صاحب ہی سے اصلاح لیتے، میں نے ایک بار ایک مضمون تاریخ استشراق پر لکھا،آزاد صاحب کو دکھلایا، زبان کی تعریف کی، صرف دو جگہ اصلاح کی لیکن حاشیہ چڑھایا کہ مطالعہ اور چیز ہے لکھنا اور چیز ،لکھنے میں ارتکاز و ایجاز پیدا کرو، یہ مضمون نہیں مضامین ہیں، یہ مضمون فل اسکیپ تیس صفحات میں تھا، میرا قلم تھوڑا چلنے پھرنے لگا تو آپ کے مشورے کے پانچ سال بعد اسے دوبارہ لکھا صرف ڈھائی صفحے میں مکمل ہوا۔
طلبا میں اردو زبان ادب سے دلچسپی پیدا کرنے کی کو شش کرتے، انجمنوں کی صدارت کرتے تو رجسٹر پر ہر تقریر کے بارے میں مفصل تبصرہ کرتے، زبان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے، آپ کی شاعری میں استاذانہ رنگ تھا، شاعری کے نمونے محدث رحمانیہ دہلی میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، مولانا سیف بنارسی کی وفات پر بھی ایک مرثیہ کہا جو نور توحیدسیف الاسلام نمبر میں موجود ہے ، دارالحدیث رحمانیہ سے شائع ہونے والے محدث، الہدی، صوت الجامعہ اور ترجمان میں آپ کے لکھے ہوئے مضامین بکھرے پڑے ہیں، انتقاد صحیح آپ کے نام سے مولانا نذیر احمد املوی رحمہ اللہ نے کسی مصلحت سے شائع کی تھی، آپ نے اس کا مسودہ برادر محترم ڈاکٹر خالد شفاء اللہ رحمانی کے حوالہ طبع ثانی کے لیے کردیا، بھائی صاحب نے مولوی عبد الحمید غازی پوری سے کتابت بھی کروالی، لیکن ذرائع نہ ہو سکنے کی وجہ سے شائع نہ کرکے، جامعہ سلفیہ کے سپرد کردیا، ممکن ہے اب بھی کہیں کسی کونے کھدرے میں پڑا ہو، بہترین شاعر تھے، ۱۹۶۸ء میں طلبا کی منڈوا ڈیہہ میں سیر ہوئی تھی، اس میں مشاعرہ کی ایک نشست بھی ہوئی تھی، مولانا آزاد صاحب اور طلبا میں مولانا رفیق احمد سلفی (دار الدعوہ دہلی) کی غزلیں حاصل نشست رہیں، حکمت دار الحدیث رحمانیہ سے فراغت کے بعد پڑھی تھی، طلباء اور اساتذہ کو فرمائش پر نسخہ لکھ دیتے۔
آخری سالوں میں دار الحدیث سے متصل چھوٹے سے کمرے میں آپ کی رہائش تھی، ۱۹۷۸ء کی ایک صبح چپکے سے آپ ایسے رخصت ہوگئے کہ کسی کو خبر ہوئی،کسی کو نہ ہوئی، میت آپ کے وطن املو مبارک پور لے جائی گئی، جامعہ سے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کے لیے بس کا انتظام کیا گیا تھا، تدفین کے لیے سارے اساتذہ اور کافی طلبا گئے، اللہ رب العالمین آپ کی مغفرت فرمائے۔ آمین
محمد ابوالقاسم فاروقی
۲۲/۲/۲۰۱۸

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحيم بنارسي

ماشاءاللہ ہمارے اکابرین کی مثالی زندگی کے احوال بیان کرکے آپ نے نئی نسل کو مشعل راہ دکھائی۔اللہ آپ کو دنیا وآخرت میں سرخرو فرمائے۔