گرتی ہوئی دیوار سنبھالی نہیں جاتی

عبدالکریم شاد شعروسخن

ہونی تو کسی طرح بھی ٹالی نہیں جاتی

گرتی ہوئی دیوار سنبھالی نہیں جاتی


یہ عمر جوانی تو سنورنے کے لیے ہے

آئینے کی اک بات بھی ٹالی نہیں جاتی


اوپر کی طرف رخ ہو تو تھوکا نہیں جاتا

عزت کسی مفلس کی اچھالی نہیں جاتی


بار غم دوراں سے ہوا جاتا ہے بوجھل

اب دل سے تری یاد سنبھالی نہیں جاتی


ہم پاؤں بڑھانے کے لیے رہتے ہیں تیار

اور ان سے کوئی راہ نکالی نہیں جاتی


حالات نے سمجھانے کی کوشش تو بہت کی

اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی


جینے کی تمنا ہے نہ مرنے کی ہی خواہش

بیمار ہوں ایسا کہ دوا لی نہیں جاتی


صد حیف! کہ جس در کے سوالی ہیں نظارے

اس در کی طرف چشمِ سوالی نہیں جاتی


میں خود کو سمجھتا تھا عبث ہی بڑا شاعر

اشعار میں صورت تری ڈھالی نہیں جاتی


اب تاج محل بننے پہ آتا ہے تعجب

جب عشق کی بنیاد ہی ڈالی نہیں جاتی


شاید مجھے قائل نہیں کر پاتی مری عقل

دل کی تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی


ہم زخم چھپائیں کہ سنیں وعظ و نصیحت

خنجر سے کوئی بات بھی خالی نہیں جاتی


خود ہی گلے پڑ جاتی ہے اے شاد! محبت

یہ ایسی مصیبت ہے جو پالی نہیں جاتی

آپ کے تبصرے

3000