يوم جمہوریہ اور ہندوستانی مسلمان

ذکی نور عظیم ندوی سیاسیات

سورہ لقمان کی آخری آیت، آیت نمبر۳۴ میں اللہ نے قیامت، بارش، رحم مادر سے بچے کی پیدائش، مستقبل کے فیصلوں اور انسان کی موت، اس کی جگہ اور وقت کی صحیح جانکاری اور معلومات کو اپنا خاص امتیاز قرار دیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
(لقمان ۳۴)
یعنی انسان اس دنیا میں ایک مدت گزارنے، مختلف چیزوں کی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے باوجود بھی خود اپنی موت کی جگہ اور وقت کے سلسلے میں کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی نہیں کر سکتا بلکہ یہ صرف اللہ کا اختیار ہے۔ تو اپنی پیدائش کے بارے میں جبکہ اس کا وجود ہی نہیں وہ کیسے کچھ کر سکتا ہے۔
یعنی انسان کی پیدائش خالص اللہ کا انتخاب اور اختیار ہے اور اس وجہ سے ہماری پیدائش کے لیے ہندوستان کا انتخاب صرف اللہ کا انتخاب ہے جس سے ہندوستانی مسلمان مطمئن اور راضی ہونے کی وجہ سے اس کی ترقی، خوشحالی یہاں امن و سلامتی، پیار محبت،آپسی باہمی تعاون اور وقت ضرورت اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کو اپنا ملکی ہی نہیں بلکہ ملی ودینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف میں درج ہیں۔ خاص طور پر جنگ آزادی میں ان کا سرگرم کردار اور عظیم قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔
انگریز جو ہندوستان میں تجارتی راستے سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے داخل ہوئے اور دھیرے دھیرے یہاں کے اقتصاد ہی نہیں بلکہ اقتدار میں بھی دخیل ہوگئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ان کے تخت پر بیٹھنے سے منع کردیا۔اور۱۸۵۷ء میں بہادر شاہ ظفر کے سبھی بیٹوں کے سر قلم کر کے ایک تھالی میں سجا کر ان کو پیش کرنے کے بعد بلا شرکت غیرے ۱۹۴۷ء تک یہاں پر غیر قانونی ظالمانہ جابرانہ اور ہر طرح سے ناقابل قبول راج کرتے رہے۔یہاں تک کہ ملک کے تمام مذاہب طبقات کی مستقل مشترکہ کوششوں (جس میں مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور اہم رہا)کے نتیجے میں ۱۵؍اگست۱۹۴۷ء کو آزادی کا سورج طلوع ضرور ہوا لیکن ساتھ ہی انگریزوں کی منافقانہ اور مکار ذہنیت اور سازشوں کی وجہ سے ایک ناقابل برداشت اور نہایت تکلیف دہ زخم یعنی عظیم ہندوستان کی دو ملکوں ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کا درد بھی سہنا پڑا۔
۱۹۴۷ء میں تقسیم کے وقت پاکستان میں زیادہ تر مسلمان گئے لیکن بڑی تعداد میں مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی اور اس کو خیر باد کہنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ منقسم ہندوستان کے ذمہ داروں نے بھی اس کو پسند کیا اور بعض مسلم اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، حیدرآباد، بھوپال، جوناگڑھ اور جودھپور جیسی ریاستوں کے ابتدائی طور پر انکار کے باوجود اس کو ہندوستان کے ساتھ رکھنے کے لیے ہر طرح اور آخری درجہ کی سیاسی،سفارتی اور دیگر کاوشیں یہاں تک کہ بعض جگہوں پر تو طاقت کا بھی بھرپور استعمال کیا۔
اس طرح ہندوستان کسی خاص مذہب کا نہ ہو کر ایک سیکولر جمہوریہ کے طور پر دنیا کے نقشے میں اپنی عظمت کے جھنڈے لہراتا رہا۔ اور اس کی شناخت ایک ایسے عظیم ملک کے طور پر کی جاتی رہی جس میں ہر مذہب ہر طبقہ ہر رنگ ہر نسل اور بے شمار زبان بولنے والے لوگ ہمیشہ سے بلا کسی تفریق کے پوری آزادی اور اختیار کے ساتھ تھے اور ہیں۔
ہمارا ملک۱۵؍ اگست۱۹۴۷ء کو آزاد تو ہوگیا لیکن ابھی تک یہاں برطانوی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والا ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ۱۹۳۵‘ ہی رائج رہا۔ ہاں آزاد ہندوستان کے نئے دستور کے لیے تمام مذاہب، طبقات اور علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل ڈاکٹر امبیڈکر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کافی غور وخوض تفصیلی گفت و شنید مناقشہ، بحث ومباحثہ اور دنیا میں رائج دیگر دستوروں اور خاص طور پر ملک کے عناصر ترکیبی مختلف مذاہب، طبقات، علاقوں، زبانوں اور ان کی تہذیب وثقافت کو مد نظر رکھ کر اس عظیم ملک کے لیے سب سے تفصیلی دستور آزادی کے ۲ سال ۳ ماہ اور ۱۱ دن بعد۲۶؍ نومبر۱۹۴۹ کو مکمل کیا اور مختلف صوبوں کے مجالس قانون ساز کی منظوری کے بعد ۲۶؍جنوری۱۹۵۰ء کو اسے نافذ کردیا گیا۔
دستور میں ملک کو مذہب کے بجائے ایک سیکولر عوامی جمہوریہ بنانے، اس کے تمام باشندوں کو سیاسی سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے، ہر ایک کو آزادانہ افکار و خیال رکھنے، مذہب و عقیدہ پر عمل، مذہبی اداروں کی تعمیر اور اس کی دعوت وتبلیغ ،عبادت کرنے اور عبادت گاہ کی تعمیر اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ حیثیت اور موقع کے اعتبار سے مساوات و برابری کا حق دیا گیا اور اتحاد و سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے اخوت و بھائی چارہ فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
اور یوم آزادی۱۵؍ اگست کی طرح قانون سازی کی تکمیل کے دن۲۶؍ نومبر کے بجائے قانون کے نفاذ کے دن۲۶؍ جنوری کو دوسرا قومی دن مان کر ان دونوں دنوں۱۵؍ اگست اور۲۶؍ جنوری کو ملکی سطح پر جشن منانے اور عام تعطیل رکھنے کو قانونی حیثیت دی گئی۔ اور یہ پیغام دیا گیا کہ جس طرح مکان کا نقشہ بنانے کے بجائے اس کے مطابق تعمیر اور کسی پروجیکٹ کے پلان کے بجائے اس کے مطابق اس کا نفاذ اصل ہے اسی طرح ملک کے لیے دستور سازی سے زیادہ اس کا نفاذ اصل ہے۔اس لیے ہمارا دوسرا قومی دن۲۶؍ جنوری ہوگا۔
مسلمانوں سے عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک مذہب اصل ہے یا ملک؟ تو اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں کسی ایک پہلو کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ اس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اس میں عقائد عبادات اخلاق و کردار دیگر معاملات کے ساتھ ملک کی ترقی وخوشحالی، وہاں امن و سلامتی اور دیگر امور کو مجموعی طور پر برتا جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے جب بھی ملک کو ضرورت ہوئی مسلمان کبھی پیچھے نہیں رہا بلکہ صف اول میں نظر آیا جس کی تاریخ گواہ ہے۔
اسلام میں تو دیگر حقوق نظرانداز کرکے صرف اللہ کے حقوق کی فکر کو بھی درست نہیں مانا گیا۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی نے حضرت ابو الدرداء کو دن میں روزہ رکھنے اور رات میں صرف عبادت کرنے سے روکا اور کہا تم پر تمھارے رب کا، تمھارے اپنے جسم وجان کا، تمھاری بیوی بچوں کا بھی حق ہے اور ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو تبھی سچے مسلمان ہو گے:
إن لربك عليك حقا، وإن لنفسك عليك حقا، ولأهلك عليك حقا، فأعط كل ذي حق حقه
(بخاری)
اس ملک میں مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے حلف الفضول کے موقع پر قریش کے کچھ با اثر لوگوں کے ساتھ مل کر ادا کیا تھا کہ آج کے بعد اس سرزمین پر کسی پر بھی ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ اور نبوت کے بعد بھی اس طرح کے موقع پر شرکت کو باعث فخر قرار دیتے ہوئے اس کے بدلہ میں سرخ اونٹنی کو بھی نا پسند قرار دیا تھا:
لقد شهدت مع عمومتي حلفا في دار عبد الله بن جدعان، ما أحبّ أن لي به حمر النعم
(احمد)

آپ کے تبصرے

3000