مولانا عبدالوحید سلفیؔ رحمہ اللہ

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

ناظم اعلی جامعہ سلفیہؔ (بنارس) مولانا عبدالوحید سلفیؔ رحمہ اللہ
(۱۹۲۴-۱۹۸۹ء)

جمال سیرت و صورت کی تھی ایسی فراوانی

پتہ دیتی تھی اس کی اک جھلک میں روئے نورانی

بدل جاتا ہے خوئے نیک سے ماحول انسانی

نہیں دیکھی کسی مجلس میں دعوائے ہمہ دانی

مدبّر، نکتہ بیں و حق پناہ و مصلحت داں تھے

بنارسؔ میں وہ بزم’’تاج‘‘کے شمع فروزاں تھے


رہا تھا ’’جامعہ رحمانیہؔ‘‘ان کی ادارت میں

جماعت بھی رہی ہے مدتوں ان کی امارت میں

خلل آیا نہیں اس شغل سے ان کی تجارت میں

ہوئی تھی پیش قدمی تجربے میں اور مہارت میں

انھی کے حق میں سلفیہؔ کا آیا منصب عالی

تھا عہدہ ابتدا تا انتہا ان کے لیے خالی


زباں زد ملک میں تھا ’’ناظم اعلی‘‘لقب ان کا

رہا ہے جامعہؔ ہی بس حسب ان کا، نسب ان کا

رہا دور نظامت میں بہت عالی ادب ان کا

رہا ہر کاروبار جامعہؔ کار عجب ان کا

شعور و آگہی علم و ہنر اور زود احساسی

جمال ظاہری میں تھی یہاں باطن کی عکاسی


عمارت سے عیاں ہے فن تعمیرات اسلامی

نہ آئے ہیں کبھی تعمیر میں حالات ہنگامی

کبھی دیکھی نہیں ہے نامرادی اور ناکامی

نوائے ابتدا میں تھی نوائے خیر انجامی

عمارت کیا؟ وہ ان کے ذوق عالی کا نمونہ ہے

مدارس میں مثال’’تاج‘‘روشن ایک گونہ ہے


زہے قسمت! ادائے فرض سے بے باق ہوجانا

ادارے کے لیے چوبند ہونا، چاق ہو جانا

تھا ’’سلفیہؔ‘‘ کا اس پر بعد میں اطلاق ہو جانا

بہت ہی جلد اس کا شہرۂ آفاق ہو جانا

نہ اس میں خود نمائی اور کوئی خود ستائی تھی

جو تھی اخلاص سلفیت کی ہی فرماں روائی تھی


نوائے علم میں، ناز عبیداللہؔ پوشیدہ

در و دیوار میں عبدالصمدؔ، مختارؔ کندیدہ

یہاں تھا زمرۂ تعلیم و تربیت پسندیدہ

چنیدہ فکر و فن، علم و ہنر میں اور تھا چیدہ

جو شیخ الجامعہؔ اور ازہریؔ کی ہم نوائی تھی

تو اس سے ’’ناظم اعلی‘‘ کی کوشش رنگ لائی تھی


سمائے علم کا یہ جامعہؔ روشن ستارہ ہے

زمین ہندؔ پر منہج کا یہ واضح اشارہ ہے

یہاں اہل حدیثان وطن کا ہی اجارہ ہے

دعاؤں سے انھی کی، یہ اداروں میں ادارہ ہے

خوشا! جو منہج اسلاف کی تابندگی آئی

ہوا قائم تو سلفیوں میں اس سے زندگی آئی


عیاں اس سے جماعتؔ کی حنا بندی، ہنر مندی

رواں ہے اس میں روح’’ناظم اعلیٰ‘‘ کی دل بندی

رہے ہیں زمرۂ تدریس میں استاد آفندی

ملی ہے جاکے تب یہ علم و حکمت کی قلاقندی

رہے اپنا چمن یہ تا قیامت زندہ پائندہ!

ہر اک طائر ہو اس کا مسلک حق کا نمائندہ!


کرم فرما ہے تبدیلی میں جو حالات کی تیزی

ہے اس میں فکر و فن، علم و ادب کی آبرو ریزی

نہیں درماندہ پھر بھی اپنی سلفیتؔ کی پرویزی

ہماری کشت ویراں میں ابھی باقی ہے زرخیزی

اسی طرز کہن پر آج جو اس کی نظامت ہو

روایت ہو سلامت، کامیابی کی علامت ہو


کہاں ہیں ایسے مالی اب ہمارے لالہ زاروں میں

مفکر، مصلحت بیں نکتہ رس، جو ہوں اداروں میں

جیالے ہیں بہت سے سرپرستوں کی قطاروں میں

الٰہا! کاش ہو جائیں وہ شامل ذمہ داروں میں

تو مصلحؔ ’’ناظم اعلی‘‘ کا انداز کہن لکھ دے!

انھی کی سیرت و صورت میں روداد چمن لکھ دے!

مصلحؔ نوشہروی (۲۳؍۱۰؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)

آپ کے تبصرے

3000