وعدہ ان کا رہ گیا وعدہ

شمس الرب خان شعروسخن

بہت سے امتحاں دیکھے مگر ایسا نہیں دیکھا

کہ دیکھوں جب ترا چہرہ تو دیکھیں سب مرا چہرہ


عطا کر مجھ کو بینائی جو بخشی ہیں مجھے آنکھیں

یہ کیا نظروں کو میری راکھ کر دے اک ترا جلوہ


کبھی تو شہ کو کچلے گا کبھی تو تاج روندے گا

کبھی تو خود کو پہچانے گا یہ شطرنج کا مہرہ


اگر آ جاتے وہ تو کس طرح میں دل کو سمجھاتا

یہ خوش ہے حسب عادت وعدہ ان کا رہ گیا وعدہ


نبھایا ہے مرے دربان نے کچھ اس طرح ذمہ

وہ خود مدمست ہے چاروں طرف ہے چوروں کا پہرہ


لٹا دیتا ہے سب کچھ قہقہے اس پر لگاتا ہے

بلا مطلب نہیں درویشوں میں ہے شمسؔ کا شہرہ

آپ کے تبصرے

3000