فہم سلف کے مطابق قرآن و سنت کو سمجھنے کی ضرورت و اہمیت

محمد شاہد یار محمد سنابلی عقائد

تحرير: إبراهيم بن عبد الله المزروعی
اردو ترجمانی: محمد شاہد يار محمد سنابلی

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على خاتم النبيين، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد:
سلف صالحین کون ہیں؟
سلف کے لغوی معنی: گزرے ہوئے زمانے کے آباء و اجداد اور قرابت دار۔ (لسان العرب:۹/۱۵۹) البتہ اس کی اصطلاحی تعریف میں اختلاف ہے اور تمام تر تعریفات کا محور و مرکز یہی ہے کہ سلف سے مراد صرف صحابہ کرام ہیں یا صحابہ اور تابعین ہیں یا صحابہ، تابعین اور تبع تابعین۔
قلشانی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سلف صالحین اس امت کے وہ پہلے لوگ ہیں جن کے علم میں گہرائی و گیرائی تھی، جنھیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب فرما لیا تھا۔ لہذا ان کی نقل کردہ روایات کی اتباع کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا اور ان کے لیے استغفار کرنا واجب ہے۔
ابن حجر آل بوطامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مذہب سلف سے مراد وہ منہج اور طریقہ ہے جس پر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ کرام قائم تھے۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو کسی بدعت میں ملوث تھے، یا خوارج وغیرہ جیسے کسی لقب سے معروف و مشہور تھے۔
ان سطور بالا کا خلاصہ یہ نکلا کہ سلف صالحین سے مراد صحابہ کرام اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ ہیں۔
فہم سلف کی ضرورت کیوں؟
۱۔کیونکہ سلف صالحین سب سے زیادہ پاکیزہ سيرت و کردار کے مالک، گہرے علم کے حامل اور دلوں میں سب سے زیادہ اخلاص و للہیت رکھنے والے تھے۔
۲۔کیونکہ انھیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی معیت میں انھوں نے جہاد کیا اور آپ کی سیرت طیبہ کو قریب سے جانا پہچانا۔
۳۔کیونکہ اللہ تعالی نے انھیں اپنے نبی پاک کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا۔
۴۔کیونکہ اللہ تعالی نے بہت ساری آیات کے اندر ان سلف صالحین کا تزکیہ فرمایا ہے اور ان کی تعریف و توصیف بیان کی اور ان سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان کیا ہے۔
۵۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اتباع اور اقتدا کاحکم دیا ہے۔
۶۔کیونکہ ان سلف صالحین نے دین میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد کی نیز ان کا اجماع بھی قطعی حجت اور دلیل ہے۔
۷۔کیونکہ وہ اس امت کے افضل ترین لوگ اور نصوص شریعت کی سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے تھے۔
۸۔کیونکہ قرآن کی تفسیر اور قرآن کی زبان کے متعلق سب سے زیادہ علم و معرفت رکھنے والے تھے۔
۹۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا کہ فرقہ ناجیہ (نجات پانے والی جماعت) وہ ہے جو رسول پاک اور ان کے صحابہ کرام کے طریقہ پر کاربند ہوگی۔
سلف صالحین کی منقبت اور فضیلت کے بارے میں درج ذیل آیات کریمہ شاہد ہیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَـٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
[التوبہ:۸۸]
ترجمہ: لیکن خود رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
[التوب:۱۰۰]
ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔
یہ آیت کریمہ:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ
[الكهف:۲۸]
ترجمہ: اور اپنے آپ کو انھی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں ( رضا مندی چاہتے ہیں ) خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ
[الفتح:۱۸]
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
[النساء:۱۱۵]
ترجمہ: جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔
سلف صالحین کی فضیلت و منقبت میں بہت ساری احادیث مروی ہیں۔
چنانچہ حدیث کی کتابوں میں صحابہ کرام کے فضائل سے متعلق مستقل ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ ذیل میں کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں:
صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
(میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آنے والے ہیں) [بخارى:۲۶۵۲،مسلم:۲۵۳۳]
ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: اس حدیث میں ’میرے زمانے والوں‘ سے مراد صحابہ کرام ہیں۔ اس کے بعد آنے والوں سے مراد تابعین ہیں۔ اور ان کے بعد آنے والوں سے مراد تبع تابعین ہیں۔ لہذا اس حدیث کا مقصود یہ نکلا کہ صحابہ کرام تابعین سے افضل ہیں اور تابعین تبع تابعین سے افضل ہیں۔ (فتح الباری:۷/۵)
امام نووی رحمہ اللہ بھی اسی بات کے قائل ہیں۔
صحیح مسلم اور مسند احمد میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں:
النجوم أمَنَةٌ للسماء فإذا ذهبت النجوم أتى السماء أمرها، وأنا أمَنَة لأصحابي فإذا ذهبتُ أتى أصحابي ما يوعدون، وأصحابي أمنة لأمتي فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون
(مسلم:۲۵۳۱،احمد:۱۹۵۶۶)
ترجمہ: ستارے آسمانوں کے لیے امان ہیں جب ستارے فنا ہو جائیں گے تو آسمان پر قیامت آ جائے گی۔ میں اپنے صحابہ کے لیے امان ہوں جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ چیز آئے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آئے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثلَ أُحدٍ ذهبا ما بلغ مُدَّ أحدِهم ولا نصيفه
(بخاری:۳۶۷۳،مسلم:۲۵۴۰)
ترجمہ: میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے خرچ کیے ہوئے ایک مُد اور آدھے مُد کے برابر بھی نہیں پہنچے گا۔
فرقہ ناجیہ والی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
وستفترق أمتي على ثلاثٍ وسبعين ملة كلها في النار إلا واحدة»، فقيل يا رسول الله: ما الواحدة؟ قال: «ما أنا عليه اليوم وأصحابي
(أخرجه الترمذي:۲۶۴۱، واللفظ له، والطبرانی:۱۴/۵۳-۱۴۶۴۶،والحاكم:۴۴۴)
ترجمہ: عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ایک کے سوا سارے فرقے جہنم میں جائیں گے۔ دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ فرقہ وہ ہوگا جو اس منہج اور طریقے پر چلے گا جس طریقے پر آج میں اور میرے صحابہ چل رہے ہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
لا تزالون بخير مادام فيكم من رآني وصاحبني، والله لا تزالون بخير مادام فيكم من رأى من رآني وصاحب من صاحبني
[أخرجه ابن أبي شيبة:۴/۱۲۴۶۳، وابن أبي عاصم:۱۴۸۱، وصحَّحه الألباني في «الصحيحة»:۳۲۸۳]
ترجمہ: تم لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی میں رہو گے جب تک تمھارے درمیان وہ لوگ موجود ہوں گے جنھوں نے مجھے دیکھا اور میری صحبت پائی ہے۔ اللہ کی قسم تم لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی میں رہو گے جب تک تمھارے مابین وہ لوگ موجود ہوں گے جنھوں نے میرے صحابہ کو دیکھا اور میرے صحابہ کی صحبت پائی ہے۔
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبد حبشي فإنه من يعش منكم يرى اختلافا كثيرا وإياكم ومحدثات الأمور فإنها ضلالة فمن أدرك ذلك منكم فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين عضوا عليها بالنواجذ
(أخرجه أبو داود:۴۶۰۷ واللفظ له، وأحمد:۱۷۱۸۵)
ترجمہ: میں تمھیں اللہ کے تقوی اور حاکم کی سمع و اطاعت کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ تمھارا حاکم کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ جو تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا۔ دین میں ایجاد کی گئی نئی چیزوں سے بچو کیوں کہ یہ سب گمراہی ہے۔ تم میں سے جو ایسا زمانہ پائے تو اس وقت میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھے۔
اس حدیث میں خلفائے راشدین کی سنت سے مقصود وہی ہے جو اس ٹکڑے ’ما أنا عليه اليوم وأصحابي‘ کا مفہوم ہے۔ اس کی دلیل درج ذیل اقوال ہیں۔ اس جملے کا یہ مفہوم نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے علاوہ خلفائے راشدین کی کوئی الگ سنت ہے جس کی اتباع کی جائے گی۔ بلکہ صحابہ نے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کی پیروی کی۔ اس لیے اس کا مفہوم وہ طریقہ اور سنت ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے طریقے سے موافق اور مطابق ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رہی بات خلفائے راشدین کی سنت کی تو انھوں نے رسول پاک کے حکم سے جو عمل اور طریقہ اختیار کیا وہ بھی سنت رسول ہی کے حکم میں ہے۔ اور دین میں وہی چیز واجب، حرام اور مستحب ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب یا حرام یا مستحب قرار دیا ہے۔ (شيخ الإسلام:۱/۲۸۲)
فُلّانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سنت کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی طرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر و عمر دونوں سنت رسول پر قائم تھے۔ اس لیے اس حدیث کو اسی معنی پر محمول کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں یہاں ’فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء‘ عطف کرنے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت رسول سے الگ خلفائے راشدین کی کوئی مستقل سنت نہیں جس کی اتباع کی جائے۔ (إيقاظ همم أولي الأبصار ص:۲۳)
ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلفائے راشدین کی اتباع کا حکم دو صورتوں سے خالی نہیں: ایک صورت یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے علاوہ خلفائے راشدین کو انھیں اپنی سنت ایجاد کرنے کا جواز فراہم کیا تھا۔ یہ ایسی بات ہے جسے کوئی بھی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے خلفائے راشدین کی اتباع کا حکم اس صورت میں دیا ہے جب وہ سنت رسول کی اقتدا کریں۔ اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس حدیث کو اسی دوسری صورت پر ہی محمول کیا جائے گا۔ (الإحكام في أصول الأحكام:۶/۷۶-۷۸)
سلف صالحین کے چند امتیازی اوصاف:
(أ) سلف صالحین اس امت کے سب سے افضل اور بہترین لوگ ہیں۔ اس کی دلیل بخاری اور مسلم کی یہ حدیث ہے: میری امت کے سب سے افضل میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آنے والے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علمی اور دینی اعتبار سے نیک شہرت رکھنے والا ہر شخص اس بات کا معترف ہے کہ اس امت کے سب سے افضل لوگ صحابہ کرام ہیں۔ (شرح الأصفهانيہ:۱۲۸)
(ب) سلف صالحین اس امت کے سب سے زیادہ نصوص شریعت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے قرآن کریم، تورات اور انجیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے۔ صحابہ کرام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو ہم تک پہنچایا۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس لیے انھیں اللہ کے رسول کی مراد کا علم اور آپ کے سنت کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ علم و اجتہاد، ورع و تقوی اور عقل و فہم ہر لحاظ سے ہم سے افضل ہیں۔ ان کی آراء و اجتہادات ہماری اپنی آراء سے زیادہ لائق تعریف اور ہمارے لیے زیادہ قابل اقتدا ہیں۔ اگر ان کا کوئی قول موجود ہے اور اس کے برخلاف کسی اور کا قول نہیں ہے تو ہم انھی کے قول کو لازم پکڑتے ہیں۔ (إعلام الموقعين:۱/۸۰)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سنت و حدیث کے حاملین، اللہ کے رسول اور آپ کے مقرب صحابہ کے علم و آثار کے خوشہ چیں اس علمی ورثے کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔ چنانچہ دین کے متعلق ان کے علم و فہم، عمل اور عقیدے کو جو فوقیت و برترى حاصل ہے، مقصود شریعت کو سمجھنے میں اس کا اپنا ایک وزن اور اعتبار ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کے فتاوے اور سلف کے اقوال و آثار پر عمل متاخرین کے آراء و فتاوی سے زیادہ افضل اور بہتر ہے۔(إعلام الموقعين:۴/۱۱۸)
(ج) سلف صالحین قرآن کریم کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے ہیں: اس لیے کہ قرآن انھی کی زبان میں نازل ہوا۔ اور وہ اہل عرب میں سب سے زیادہ فصیح زبان کے مالک تھے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے دین میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد کی۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کا بیان ہے: میں نے امام شافعی سے پہلے بھی علماء اور ائمہ کو امام شافعی کی طرح اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پایا کہ بدعتوں کے ایجاد کا سبب عربی زبان سے عدم واقفیت اور جہالت ہے۔ (صون المنطق ص۲۲)
(د) سلف صالحین قرآن کی تفسیر کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ اس لیے کہ وہ قرآن کی زبان کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ نیز قرآن کو سیکھنے، اسے حفظ کرنے اور اس کی تفسیر جاننے کے بہت زیادہ حریص اور شوقین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر قرآن کے بہتر طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے ذریعہ تفسیر کرنے کے بعد صحابہ اور تابعین کے اقوال و آثار سے اس کی تفسیر کی جائے۔
حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: طالب علم کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحابی کی تفسیر جس نے وحی اور اور قرآن کو اترتے دیکھا وہ تفسیر شیخین (بخاری ومسلم)کے نزدیک مسند حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ (المستدرك:۲/۲۵۸)
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج سے کہا تھا: میں صحابہ رسول کے پاس سے آ رہا ہوں اور ان میں سے کوئی بھی تمھارے درمیان موجود نہیں ہے۔ یہ قرآن کریم انھی صحابہ پر نازل ہوا اور وہ اس کی تفسیر کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔ (جامع بيان العلم:۲/۱۲۷)
سلف صالحین کے متعلق اس امت کے علماء اور ائمہ کرام کے اقوال:
(۱)صحابہ کرام اور سلف صالحین کے بلند مقام ومرتبہ کو بیان کرنا اہل سنت کا شعار رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے اپنے عقیدے میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک عقیدہ کے بنیادی اصول میں سے صحابہ کرام کے منہج اور طریقے کو مضبوطی سے تھامے رہنا ان کی اتباع کرنا اور بدعات سے اجتناب کرنا ہے۔ (شرح أصول السنة لللالكائی:۱/۱۵۶)
(۲)ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے: جو تم میں سے اقتدا کرنا چاہتا ہے وہ صحابہ رسول کی اقتدا کرے کیونکہ وہ اس امت کے سب سے زیادہ نیک دل، گہرے علم، کم تکلف اور سب سے بہتر منہج اور طریقے کے حامل تھے۔ یہ ایسے مقدس لوگ تھے جنھیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کی نشر و اشاعت کے لیے پسند فرمالیا۔ اس لیے ان کی قدر و منزلت کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو یقینا وہ لوگ سیدھے راستے پر قائم تھے۔ (ابن عبد البر فی جامع بيان العلم:۲/۱۱۹)
(۳)حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے علماء کی جماعت! تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے اور راستے پر چلو۔ اگر تم اس راستے پر سیدھے چلتے رہے تم ہدایت یاب ہو جاؤ گے اور اگر تم اسے چھوڑ کر دائیں بائیں کا راستہ اختیار کرو گے تو تم بہت دور گمراہی میں جا گرو گے۔(جامع بيان العلم:۲/۱۱۹ وأصله فی البخاری فتح:۱۳/۲۵۰ رقم۷۲۸۲)
(۴)عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد خلفاء راشدین نے جو سنتیں بتائی ہیں، ان پر عمل کرنا گویا قرآن کریم کی تصدیق کرنا ہے۔ کسی کے لیے اس میں رد وبدل کرنے کا اختیار نہیں۔ جو ان کی سنتوں کی پیروی کرے گا وہ ہدایت یاب ہوگا۔ اور جو ان سے بصیرت حاصل کرے گا وہ بصیرت یاب ہوگا اور جو ان کی مخالفت کر کے اہل ایمان کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے گا تو اللہ تعالی اسے اس کے حوالے کر دے گا اور جہنم میں ڈال دے گا اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔(اللالكائی:۱/۹۴ والآجرّى في الشريعة ص۴۸ وابن عبد البر في الجامع:۲/۲۲۸)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مالک بن انس اور دیگر ائمہ کرام عمر بن عبدالعزیز کے اس قول کو بنظر استحسان دیکھتے تھے اور ہمیشہ اسے بیان کرتے تھے۔ (إعلام الموقعين:۴/۱۵۱)
(۵)امام اوزاعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: اپنے آپ کو سنت پر قائم رکھو اور وہیں ٹھہر جاؤ جہاں سلف صالحین کے قدم ٹھہر گئے۔ وہی بات کہو جو وہ کہہ گئے ہیں اور جہاں وہ خاموش رہے وہاں خاموشی اختیار کرو۔ سلف صالحین کے نقش قدم پر چلو اس لیے کہ جو گنجائش کا دائرہ ان کے لیے تھا وہی تمھارے لیے بھی ہے۔ اور اگر یہ کار خیر ہوتا تو اسلاف کو چھوڑ کر تمھیں ہی صرف یہ شرف نہ ملتا۔(اللالكائی:۱/۱۵۴ في أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة)
(۶)ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام سارے کے سارے جنتی ہیں۔ ان کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے:كُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ)النساء:۹۵] (الإصابة لابن حجر:۱/۱۰]
(۷)ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں: اگر تم دیکھو کہ کوئی کسی صحابی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق یعنی بد دین ہے۔ (الإصابة:۱/۱۰)
فہم سلف کے مطابق قرآن و سنت کو سمجھنے کے فوائد و ثمرات:
۱۔قرآن و سنت اور سلف صالحین کے اجماع کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنے سے ایک مسلمان اختلاف و انتشار اور مختلف آراء و اجتہادات کے تضاد سے محفوظ رہتا ہے۔
۲۔شرعی دلیل پر سلف صالحین کے عمل و فہم پر غور و فکر کرنے سے استدلال کی صحت و صداقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کیونکہ سلف صالحین کے کسی دلیل پر عمل کرنے سے اس دلیل میں کسی احتمال کا کوئی شائبہ باقی نہیں رہتا اور دیگر اشکالات بھی دور ہو جاتے ہیں۔
شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شرعی دلیل پر غور و فکر کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دلیل کے متعلق سلف صالحین کے فہم اور ان کے عمل کو سامنے رکھے۔ اس لیے کہ ان کا فہم و عمل زیادہ درست اور علم و عمل کے لیے زیادہ مناسب و پائیدار ہے۔(الموافقات:۳/۷۷)
۳۔سلف صالحین کے فہم و عمل پر چلنے سے انسان غلط اور باطل قول و عمل میں پڑنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس لیے کہ صحابہ اور سلف صالحین نے جن چیزوں میں خاموشی اختیار کی ہے اور بعد کے لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے تو اس میں خاموشی ہی زیادہ لائق اور مناسب تھی۔ نیز بعد کے لوگوں نے اس میں غلط اور باطل چیز ہی ایجاد کی ہے۔
۴۔ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بدعت و گمراہی کی بنیاد اور جڑ کا قلع قمع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بعض گمراہ فرقے اپنے مذہب کی حمایت اور بدعات کی تائید کے لیے نصوص شریعت میں تحریف کرتے ہیں۔ جب کہ ان نصوص کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کا فہم ہی فیصل اور برحق ہے۔ اس کے علاوہ سب گمراہی اور اور اختلاف و انتشار ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ
[البقرة:۱۳۷]
۵۔مخالف کو جواب دینے کے لیے سلف صالحین کے فہم کا استعمال: چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج سے مناظرہ کے وقت کہا تھا: میں تمھارے پاس صحابہ رسول کے پاس سے آ رہا ہوں اور تمھارے درمیان کوئی بھی ان میں سے موجود نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن انھی پر نازل ہوا ہے اور وہی اس کی تفسیر کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں۔(جامع بيان العلم:۲/۱۲۷)
ابن عباس کے اس اثر سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بدعت میں کوئی بھی صحابی شامل نہیں حالانکہ سارے بدعتی فرقوں کی بنیاد ان کے زمانے میں پڑ چکی تھی۔
ہر وہ فرقہ اور گروہ جس میں کوئی صحابی نہ ہو تو وہ گویا گمراہی پر ہے۔
صحابہ کرام کی جانب میلان اور رجحان رکھنا یعنی ان کے مذہب اور منہج کو مضبوطی سے تھامے رہنا یہی عین کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے۔
منہج صحابہ کو ہمیشہ بطور حجت اور دلیل پیش کیا جائے گا نہ کہ اس کے برعکس۔
صحابہ کرام قرآن کی تفسیر کے بارے میں زیادہ علم رکھتے تھے۔
دارقطنی کی روایت ہے، عباد بن العوام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے پاس شریک تشریف لائے تو ہم نے ان سے کہا: ہمارے یہاں کچھ معتزلہ کے لوگ ان احادیث کا انکار کرتے ہیں:«إن الله ينزل إلى السماء الدنيا» و «إن أهل الجنة يرون ربهم» انھوں نے جواب دیا: رہی ہماری بات تو ہم نے اپنا دین تابعین کی نسل سے اور تابعین نے صحابہ کرام سے اخذ کیا ہے۔ بھلا بتاؤ ان لوگوں نے یہ دین کہاں سے حاصل کیا ہے؟(كتاب الصفات للدارقطنی ص۴۳)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے بارہا کہا ہے کہ میں نے اپنے مخالفین کو تین سال کی مہلت دی کوئی بھی شخص قرون مفضلہ میں سے کسی کا بھی کوئی ایک حرف لے کر کے آئے جو میرے موقف اور دلیل کے مخالف ہو تو میں رجوع کرنے کے لیے تیار ہوں۔(الفتاوى لابن تيمية:۳/۱۶۹)پھر آگے فرماتے ہیں: میرے مخالفین ملک کی پوری کتابوں کو چھان مارنے کے باوجود بھی کوئی ایسی چیز ثابت نہ کر سکے جو ائمہ اسلام اور سلف صالحین کے مخالف ہو۔(الفتاوى لابن تيمية:۳/۲۱۷)
خلاصہ کلام:
سطور بالا سے ہمیں درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں: سلف صالحین تمام صحابہ کرام ہیں۔ لہذا ان کی اتباع کرنا اور دین کو ان کے منہج اور طریقہ کے مطابق سمجھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام اس امت کے سب سے افضل لوگ ہیں اور قرآن و سنت اور عربی زبان کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔
سلف کی اصطلاح ہر اس شخص کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا عقیدہ و منہج اللہ کے رسول اور صحابہ کرام کے عقیدہ اور منہج کے مطابق ہو۔
رہی بات سلفیت کی تو یہ سلف کی طرف منسوب ہے اور یہ صحیح منہج کی طرف قابل تعریف انتساب ہے۔ یہ کوئی نیا مذہب اور مسلک نہیں ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی عیب اور حرج کی بات نہیں کہ کوئی شخص مذہب سلف کو اپنائے اور اس کی طرف اپنی نسبت کرے بلکہ بالاتفاق اسے قبول کرنا واجب اور ضروری ہے۔ کیونکہ سلف صالحین کا منہج ہی بر حق ہے۔ (الفتاوى لابن تيمية:۴/۱۴۹)
لہذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سلف یعنی صحابہ کی طرف انتساب کرے اور قرآن و سنت کو ان کی فہم کے مطابق سمجھے اور عقائد و عبادات اور اخلاق و معاملات میں ان کے منہج اور طریقے کی خلاف ورزی نہ کرے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

آپ کے تبصرے

3000