نفس امارہ اور شیطان مردود کے جھانسے میں آکر راہ راست سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو واعظ کی وعظ و نصیحت صراط مستقیم پر لا کھڑا کرتی ہے۔ سیدھی راہ سے ڈگمگاتے اور لڑکھڑاتے قدموں کو خطیب کی پند و موعظت طاقت و قوت بخشتی ہے۔ تذکیر سے مومنین کو فائدہ پہنچتا ہے اور عابد و زاہد کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے وعظ و نصیحت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَذَكِّرۡ فَإِنَّ ٱلذِّكۡرَىٰ تَنفَعُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ یعنی آپ وعظ و تذکیر کرتے رہیں اُس سے مومنین کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اور امت مسلمہ کو ’خیر امت‘ کا پروانہ بھی دعوت و تبلیغ اور پند و نصائح کی بدولت ہی ملا ہے۔ جیساکہ رب کا فرمان ہے:
كُنتُمۡ خَیۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِۗ (یعنی تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ رب العالمین پر ایمان رکھتے ہو)
بہترین امتی کی پہچان ہی یہی ہے کہ کسی بندے کو گناہ اور معصیت میں لتھڑا ہوا دیکھے تو تڑپ اٹھےاور اس کی اصلاح کا سامان کرے۔ صراط مستقیم پر لانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ قلم پر انگلیوں کی گرفت مضبوط ہو تو قلم و قرطاس کے ذریعہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ زبان آور ہو تو درس و دروس اور خطبہ جمعہ کا اہتمام کرے۔
الحمد للہ شہروں کی مساجد میں خطبہ جمعہ کے ساتھ ساتھ درس و دروس اور ماہانہ پروگرام کا بھی انتظام و انصرام ہوتا ہے۔ اسی لیے دیہی علاقوں کی نسبت وہاں دینداری زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔
لیکن ہمارے گاؤں دیہات میں محض خطبہ جمعہ کا بندوبست ہوتا ہے وہ بھی رسماً۔ کیوں کہ امام و خطیب کامستقل انتظام نہیں ہے اکثر جگہوں پر۔ بہت ساری مساجد میں تو خطیب بھی میسر نہیں ہیں۔ بڑے بوڑھے کتاب سے خطبہ پڑھ کر کام چلاتے ہیں۔ کیا یہ دکھ کی بات نہیں ہے؟
آخر اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ یقیناً اہل علم اور اہل ثروت حضرات ہی ہیں۔ درس و دروس کا اہتمام نہیں کرسکتے نہ سہی، لیکن ایک اچھے خطیب کا بندوبست ضروری ہے۔ اور یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے، ہمارے علاقے (بستی،سدھارتھ نگر، بلرام پور اور سنت کبیر نگر) میں مدارس ایک اچھی تعداد میں موجود ہیں۔ اگر اہل مدارس اپنے پاس پڑوس کے پندرہ، بیس گاؤں کی مساجد کی رپورٹ تیار کریں اور جہاں خطیب کی ضرورت محسوس ہو اساتذہ یا اونچی جماعت کے طلبہ کو وہاں بھیجیں تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اور مساجد کے ذمہ داران محض مہینے میں تین چار ہزار روپے خرچ کرکے ایک اچھے خطیب کا بندوبست کرسکتے ہیں۔
اہل علم اور اہل ثروت حضرات کو اس نیک کام میں حصہ ضرور لینا چاہیے۔ کیوں کہ کل قیامت کے روز علم اور دولت جیسی عظیم نعمت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی کہ دولت کا استعمال کن کاموں میں کیا؟ اور علم پر کتنا عمل کیا؟ بَلِّغوا عنِّي ولو آيَةً کے تحت کتاب و سنت کے پیغام کو عوام تک پہنچایا؟
اللہ ہمیں دین کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
یہ بہت اہم مسئلہ ہے جو ارباب حل وعقد کو اس پر غور کرنا چاہیے. عزیزی شہاب الدین کی فکر مندی لائق تحسین ہے. مدارس کے طلبہ و اساتذہ کو یہ فرض انجام دینا چاہیے اور مساجد کے ذمہ داروں کو انھیں اعزازیے سے نوازنا چاہیے. ہم جب فلاح میں پڑھتے تھے تو ان طلبہ کی ایک خطباء کمیٹی بنائی گئی تھی جو خطبہ دے سکتے تھے. پورے علاقے پر بڑے اچھے اثرات ہوتے تھے عوام بہت پیار کرتے خوشی کا اظہار کرتے تھے کہ معیاری و پرجوش خطبہ سننے کو ملتا ہے اصرار کے ساتھ کھانا کھاتے حوصلہ افزائی… Read more »