اے سنگ اسود!

کاشف شکیل شعروسخن

اے سنگ اسود آج تو
لوگوں کو اپنا ماجرا
سچ سچ بتا دے کھول کر
جنت سے جب اترا تھا تو
تیری سفیدی دودھ سے بھی
صاف اور شفاف تھی
لیکن بنی آدم کے کرتوتوں
نے میلا کردیا
چہرہ ترا
اس طرح کالا کر دیا
ظلم و ستم، ہر بام و در
فرعونیت، ہامانیت، نمرودیت، قارونیت
ہر شخص میں ہر اک ڈگر
ان‌ سب سیہ کاری کے دھبے
ایک جٹ ہوکر ترے رخسار پر
یوں آ لگے
کچھ اس طرح
تیرے رخ تاباں کو کالا کردیا
یوں سنگِ ابیض سنگِ اسود ہو گیا
اے سنگ اسود! صبر کر
اس دن تلک جب کُن فکاں پر
صورِ اسرافیل گونجے
جس وقت سب کا خاتمہ
پل بھر میں ہی ہوجائے گا
دھرتی کے افسانے سبھی
جب خاک میں مل جائیں گے
پھر ذات رب رہ جائے گی
عدل کا میزان ہوگا
اور ہر انسان ہوگا

آپ کے تبصرے

3000