اسے قضا نے نہیں مفلسی نے مارا ہے
وہ بھوک سے جو نہ مرتا تو خود کشی کرتا
پرانے دور میں صحرائی ہو گیا مجنوں
ہمارے دور میں ہوتا تو شاعری کرتا
بہت سے ننھے چراغوں کا بوجھ تھا مجھ پر
بھلا میں کیسے ہواؤں سے دشمنی کرتا
منافقت سے کوئی ربط ہی نہ تھا مجھ کو
وگرنہ کھل کے میں دنیا سے دوستی کرتا
میں در بدر ہوں محبت کی راہ میں ورنہ
اگر میں عشق نہ کرتا تو رہبری کرتا
اسے نہ پانے کا دکھ ہے مگر یہ سچ ہے سراج
وہ مل بھی جاتا تو مجھ کو اداس ہی کرتا
آپ کے تبصرے