استاذ گرامی شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفیؔ رحمہ اللہ
(۱۹۱۵-۱۹۸۶ء)
نہ عالم میں ہو پیدا جذبۂ کار فراوانی
نہ اس میں شان صدیقیؔ نہ فاروقیؔ نہ عثمانیؔ
شجاعت حیدر کرار کی، نہ زہد سلمانیؔ
تو ایسا علم ہے نقصان دہ اور دشمن جانی
کتاب و سنت خیر الوری کی شان جس میں ہو
وہ عالم ہے کہ علم و فضل کا عرفان جس میں ہو
وہ دربھنگہؔ جو ہندوستاںؔ کی مردم خیز بستی ہے
وہاں پر دین و دنیا دونوں کی بدلی برستی ہے
نہیں تعلیم کی اس میں کہیں بھی کوئی پستی ہے
علاقے بھر میں علم و فضل و فن کی بالادستی ہے
ہمارے شیخ شمسؔ الحق علاقے کے تھے باشندہ
سپہر علم پر پھر ان کو ہو جانا تھا تابندہ
وہ شخصیت میں ان کی آن دیکھی بان دیکھی ہے
کہ علم و فضل میں وہ عالمانہ جان دیکھی ہے
انھی میں میں نے جو شیخ الحدیثی تان دیکھی ہے
کبھی غیرت کے موقع پر جلالی شان دیکھی ہے
نمایاں ان میں ہر پہلو سے خوئے حق پرستی تھی
جلالی شان میں وہ ہستیوں میں ایک ہستی تھی
خلاف حق کوئی بھی بات ہو، اظہار کر دینا
نوائے دیں سے غفلت کیش کو ہوشیار کر دینا
جو ہیں سوئے ہوئے حق کے لیے بیدار کر دینا
کہ جام سنت نبوی سے یوں سرشار کر دینا
ملی ہے خوئے مرد حق مشائخ کی حضوری سے
جناب احمداللہؔ، آرویؔ، جیراجؔ پوری سے
تلامیذ نذیرؔ دہلوی سے تھے وہ وابستہ
ہراول تھا وہ سلفیان ہندوستان کا دستہ
وہ جوش و جذبۂ سنت میں، حق گوئی میں برجستہ
نہ اس کا دل شکستہ تھا، نہ اس کا حال تھا خستہ
اسی دستے کے وہ اک رکن عالی، نام نامی تھے
وہ عالم تھے وہ خاص الخاص بھی تھے اور عوامی تھے
مدرسؔ تھے محدثؔ تھے، ہر اک ہم راہ شاہد ہے
وہ داعی اور مبلغ، ان کا حق آگاہ شاہد ہے
خطابت اور امامت ان کا عالیجاہ شاہد ہے
وہ منبر سلفیہؔ کا اور طیب شاہؔ شاہد ہے
جہاں تھے، مسند شیخ الحدیثیت کی زینت تھے
بہت پابند تھے، پامرد تھے اور پاک طینت تھے
نہیں وہ دیکھ سکتے تھے کبھی سنت کی پامالی
انھیں غمگین کرتی تھی مسلمانوں کی بدحالی
وہ ہمت حوصلہ اور جوش و جذبے سے نہ تھے خالی
بڑھاپے میں بھی ہم نے دیکھی ہے ان میں جواں سالی
گر اپنے ہمسروں سے بھی کوئی سرزد ہو کوتاہی
نہیں آتی انھیں اظہار حق میں کچھ بھی روباہی
عزیر شمسؔ، مصروف ادائے حق فرزندی
انھیں تحقیقؔ و بحثؔ و نقدؔ کی حاصل قلاقندی
کریں وہ گلستان شمسؔ کی بہتر چمن بندی
اسی میں عقل و دانش ہے اسی میں ہے برو مندی
رہے یہ خانوادہ زندہ و پائندہ تابندہ!
وہ جیسے آج ہے، اللہ رکھے اس کو آئندہ!
وہی ہے سرزمیں اپنی وہی بادل برستے ہیں
وہی ہیں درسگاہیں اور وہی طلبہ کے رستے ہیں
وہیں اب بھی معلم، طالبان علم بستے ہیں
مگر مصلحؔ ہم آج ایسے مکینوں کو ترستے ہیں
الٰہا! ختم ہو اہل مکاتب کی خدواندی
کریں پھر اہل حق اسلاف سی اپنی حنا بندی
مصلحؔ نوشہروی( ۱۴؍۱۰؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)
آپ کے تبصرے