اردو میں لکھی گئی عقیدے کی کتابوں کے بھی دروس ہوں

سرفراز فیضی عقائد

پچھلے کچھ سالوں سے ایک خوش آئند بات یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ ہندستان کے مختلف شہروں میں میں اب تقریروں سے ہٹ کر عوام میں عقیدے کی مختلف کتابوں کی تدریس کا رجحان بناہے،ان سلسلہ وار دروس میں عام طور پر علماء عرب کی کتابوں بالخصوص شیخ الاسلام محمد بن عبدالوھاب کی کتابوں کی تدریس ہورہی ہے مثلا کتاب التوحید، الاصول الثلاثۃ، القواعد الاربعۃ وغیرہ۔
بلاشبہ یہ کتابیں بنیادی عقیدے کی تفہیم اور تاصیل کے لیے بہت مفید ہیں،البتہ ہندستانی عوام کے مزاج اور یہاں کے مخصوص مسلکی حالات کے پیش نظر ان کتابوں کے ساتھ ساتھ ہندوپاک کے علماء کی عقیدے پر اردو میں لکھی گئی کتابوں کےدروس بھی ہونے چاہئیں ، مثلا تقویۃ الایمان، رد عقائد بدعیہ، تردید حاضر وناظر اور شواھد الشاھد، اکمل البیان، رزم حق وباطل،توحید الرحمٰن بجواب استمداد از عباد الرحمٰن، عقیدہ اہل حدیث (یحیی گوندلوی)، بریلویت وغیرہ ۔ان کتابوں کی تدریس کےبہت سارے ایسے فوائد ہیں جو عربی سے ترجمہ شدہ کتابوں کی تدریس سے نہیں حاصل کیے جاسکتے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو زبان کا اپنا ایک مزاج اور لہجہ ہے جو عربی زبان سے بہت مختلف ہے، عربی زبان میں جامع جملے اور عبارتیں بلیغ شمار ہوتی ہیں جبکہ اردو میں تفصیلی زبان فصیح ہوتی ہے ، عربی میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوتے ہیں اور اردو میں الفاظ زیادہ اور معانی کم لہذا عربی عبارتوں کا اردو ترجمہ خواہ کتنا ہی اچھا ہوعربی عبارتوں کی جامعیت کو سمیٹ نہیں پاتا۔ اردو بولنے اور پڑھنے والوں کے لیے عربی سے ترجمہ شدہ کتابوں میں لہجہ اور تعبیر کی اجنبیت بہر حال باقی رہ جاتی ہے اور ترجمہ شدہ کتابیں ان پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوپاتیں جیسی اپنی مادری زبان میں لکھی گئی کتابیں۔
دوسری بات یہ کہ عقیدے کی تعلیم کا اصل مقصد توحید کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے عرف اور سماج میں پائے جانے والے شرک سے عام مسلمان کو خبردار کرنا اور طالب علم کو اس کے رد کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے عربی کتابوں سے زیادہ مفید یہاں کے پس منظر میں لکھی گئی کتابیں ہیں جن میں یہاں پائے جانے والے شرک کے مختلف مظاہر کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اوران کا رد یہاں کی عوام کی علمی اور نفسیاتی کیفیات کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہوتا ہے۔
ہندوپاک کی مسلکی فضا عرب سے بہت مختلف ہے، یہاں کے مسلم معاشرے میں شرک اور بدعقیدگی پر مشتمل بہت سارے مظاہر اور رسومات ایسے ہیں جن کے وجود سے عرب دنیا پاک ہے ، لہذا وہاں کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی کتابوں میں ان بدعتوں اور رسومات کا خصوصی رد نہیں ملتا۔ البتہ ہندوپاک کے علماءجب عقیدے کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو عقیدے کے عمومی بیان کے ساتھ ساتھ ان رسومات اور بدعات کا رد بھی دلائل کے ساتھ کرتے ہیں ۔لہذا یہاں کے علماءکی تحریریں اس اعتبار سے عربی کتابوں سے زیادہ مفید ہیں ۔
ایک پہلو اس معاملے کا یہ بھی ہے کہ ہندوپاک کی شرک وبدعات میں ملوث جماعتوں کی حالت عرب کی جماعتوں سے کئی معاملات میں مختلف ہے،یہاں کی بدعتی جماعتیں چند عقائد کو خصوصی طور پر بحث کا موضوع بناتی رہی ہیں اور اب بھی بناتی ہیں بلکہ یہ مخصوص عقائد ہی ان کی شناخت ہیں اور ان پر ہی ان کے مسلک کی بنیاد ہے، مثلا قبر پرستی، پیر پرستی،علم غیب، حیات النبیﷺ،حاضر ناظروغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں کے علماء کی عقیدے کی کتابوں میں ان مخصوص عقائد کے رد کی طرف توجہ زیادہ دی گئی ہے کیونکہ یہاں کی مخصوص حالت میں اس کی ضرورت اور فائدہ بھی زیادہ ہے۔ طالب علم کو اگر ان مخصوص مسائل کے رد میں ماہر کردیا جائے تو دعوت و اصلاح کے میدان میں اس سے بہترین کام لیا جاسکتا ہے ۔عرب کے علماء کا ان مسائل میں رد کا طریقہ یہاں کے علماء سے مختلف ہے ، یہاں کے دعوتی میدان کے لیے ان مسائل میں رد کےلیے یہیں کے علماء کی تحریریں زیادہ کارگر ثابت ہوں گی ان شاء اللہ۔
تیسری بات یہ ہے کہ کچھ یہاں کی عوام کی عربی زبان سے نا واقفیت کی وجہ سے اور کچھ ان کی دینی علم سے دوری کی وجہ سے اہل بدعات کے بہت سارے شبہات ایسے ہوتے ہیں جو خاص یہاں کی عوام پر کارگر ہوتے ہیں،اس قسم کے اعتراضات وشبہات کے جواب عرب علماء کی کتابوں میں نہیں ملتے،
مثال کے طور پر’’محمد رسول اللہ‘‘ کا ترجمہ ’’محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘ میں لفظ ’’ہیں‘‘ سے نبی ﷺ کی حیات پر استدلال کرنا۔ایسے ہی ’’استعینوا بالصبر والصلاۃ‘‘ کے ترجمہ ’’نماز اور روزے سے مدد طلب کرو‘‘ سے یہ استدلال کرنا کہ روزہ اور نماز بھی کیونکہ غیر اللہ ہیں لہذا غیر اللہ سے مدد طلب کرنا جائز ہے۔
اس قسم کی دلیلیں بدعتی علماءکی جانب سے گڑھی جاتی رہیں ہیں اور ان کی کتابوں اور مجلسوں میں گردش کرتی رہتی ہیں جن کے ذریعے ان کے علماءاپنی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگے رہتےہیں ۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے اعتراضات کے جواب عربی کتابوں میں نہیں ملیں گے، ان کا مناسب رد یہاں کے علماء اپنی تحریروں میں کرتے ہیں ۔
لہذا جو اہل علم دعوتی میدان میں تدریس کا کام کررہے ہیں ان کو عربی کتب کے ساتھ ساتھ ان کتابوں کو بھی اپنے سلسلہ دروس میں شامل فرمانا چاہیے۔
اس سلسلے میں ایک کام اہل قلم علماء کے کرنے کا ہے، پرانے علماء کیونکہ اہل بدعت کے ساتھ زبان وقلم کے مناظرے ہوتے رہتے تھےاس لیے ان اہل باطل کی بدعتوں اور اس کی تائید میں دیے جانے والے دلائل سے مکمل واقفیت رکھتے تھے، اِس دور میں مناظروں کا وہ ماحول باقی نہیں رہا، اس لیے اب اہل علم اہل بدعات کے مسلک اور ان کے دلائل سے کما حقہ واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی مناظراتی تحریریں اور کتابیں اب شائع نہیں ہوتیں جیسی پرانے ادوار میں شائع ہوتی تھیں، حالانکہ ان کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ اہل علم کو ان موضوعات پر اب نئے سرے سے قلم اٹھانے کی اور شرک وبدعات کے رد میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اخلاص اور حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد مبارک انصاری

جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین

محمد عمر صلاح الدین

جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
نہایت عمدہ مشروہ ہے،