اور ہواؤں سے تعلق دوستانہ چاہیے

عبدالکریم شاد شعروسخن

صرف جینے کے لیے بس آب و دانہ چاہیے

ہم پرندوں کو مگر سارا زمانہ چاہیے


عشق دنیا کی نظر میں ایک دھوکا ہے، مگر

یہ وہ دھوکا ہے جو دانستہ بھی کھانا چاہیے


باغ کی کلیو! تمھیں بھنوروں کے غم سے کیا غرض

’’مسکراؤ تم کہ تم کو مسکرانا چاہیے‘‘


کیا زمانہ ہے، قبا تو چاہیے بالکل نئی

دل مگر انسان کو صدیوں پرانا چاہیے


کیسے پتے ہیں کہ اپنی شاخ سے بھی ہیں الگ

اور ہواؤں سے تعلق دوستانہ چاہیے


اس کی ٹھوکر میں نہیں باقی سنبھلنے کا سبق

راستے سے اب تو یہ پتھر ہٹانا چاہیے


کوئی بھی صورت نظر آئے محبت کا خیال

عقل میں آئے نہ آئے دل میں آنا چاہیے


عشق میں ترک تعلق کی تو گنجائش نہیں

ہاں مگر وقتا فوقتا روٹھ جانا چاہیے


قیس کی دیوانگی کا دور ہوتا تھا کبھی

شاد! اب تو دشت کو تجھ سا دوانہ چاہیے

آپ کے تبصرے

3000