مرے خدا تری رحمت کا آسرا ہو جائے
مرے خلاف بھلے میرا ہم نوا ہو جائے
میں ایک غم میں ہزاروں سراغ ڈھونڈتا ہوں
مری طرح کوئی سوچے تو باولا ہو جائے
وہ ایک سنگ سیہ ہے مگر کمال کا ہے
کوئی جو لمس بھی پا لے تو پارسا ہو جائے
تری ہواؤں کا طوفان تند و تیز سہی
مرے قریب سے گذرے تو پھر ہوا ہو جائے
ذرا سی شہہ جو ملی ہے تو ہوگیا مغرور
کچھ اور ہاتھ جو لگ جائے تو خدا ہو جائے
ہزار بار سنبھلتے سنبھلتے سنبھلے ہیں
کبھی جو پھر سے وہ مل جائے حادثہ ہو جائے
ہزار بات وہ بولیں تو کوئی بات نہیں
میں ایک بات جو کہہ دوں تو انتہا ہو جائے
یہ اس کا پیار مری جان لے کے چھوڑے گا
اسے کہو کہ ذرا دیر تو خفا ہو جائے
خیال ہجر کا لمحہ بھی اک عذاب سا ہے
ترے بغیر تو جینا ہی بد دعا ہو جائے
سراجؔ کچھ تو غزل میں جمال یار بھی ہو
اب اتنے غم نہ جتاؤ کہ مرثیہ ہو جائے
اب اتنے نہ جتاؤ کہ مرثیہ ہوجائے
بارك الله فى علمك و نفع بك الإسلام والمسلمين آمين