مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

استاذ گرامی مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ
(۱۹۴۳-۲۰۰۶ء)


جامعہ زمرہ تدریس میں لاثانی تھا

اس کا ماحول بھی پاکیزہ و ایمانی تھا

سارے طلبہ کے لیے باعث آسانی تھا

مختصر جو بھی تھا وہ مجمع انسانی تھا

بن گیا جامعہؔ استاذ گرامی کے لیے

شہرۂ خاص بھی اور بزم عوامی کے لیے


قابل ذکر رہی فہم و فراست ان کی

عالمی خبروں پہ تھی فکرو حراست ان کی

قابل ذکر تھی تحلیل و سیاست ان کی

دور تک پھیل گئی علمی ریاست ان کی

علم جغرافیہؔ، تاریخؔ انھیں آتی تھی

درک تھا اس میں جو خبروں کی خبر آتی تھی


درس و تدریس میں ان کا تھا مقام عالی

فکر و فن، شعرو ادب سے نہ رہے وہ خالی

فہم و تفہیم میں دیکھی نہ کبھی بے حالی

ان کے انداز کی دنیا کرے ہے نقالی

درس میں ان کے جو بھی علم کے موتی بکھرے

ذہن شفاف ہو اہلیت طالب نکھرے


طرز تالیف ہے تحقیق و نظر سے موسوم

بحث و تحقیق سے واضح ہے حقیقی مفہوم

آج عالم کو ہوئی ان کی حقیقت معلوم

علم کا ان کے سراپا ہے ’رحیق مختوم‘

’رابطہ‘نے جو مصنف کی قدردانی کی

تمغہ خاص سے سیرت کی ثنا خوانی کی


ان کی تصنیف جو مجموعہ اوراق ہوئی

وہ اداروں میں کئی داخل اسباق ہوئی

اپنے فن میں وہ مقدم ہوئی سباق ہوئی

سیرت پاک میں وہ شہرہ آفاق ہوئی

اس میں ترتیب حوادث کی جو گیرائی ہے

قابل رشک ہے اور وجہ پذیرائی ہے


دفع باطل کے لیے حق کے مناظر بھی رہے

غلبہ حق کے لیے وقت پہ حاضر بھی رہے

وہ مخالف پہ تو غالب رہے قادر بھی رہے

اپنے انداز ہنر مند میں نادر بھی رہے

ان کا انداز جو ہوتا وہ نرالا ہوتا

ہوتا جو مد مقابل، تہ و بالا ہوتا


وہ کسی چیز پہ تنقید جو فرماتے تھے

سخت سے سخت کو باتوں سے وہ نرماتے تھے

اپنی تنقید سے ماحول کو گرماتے تھے

جو مقابل تھے اشاروں سے ہی شرماتے تھے

ان کی تنقید میں شمشیر کی تیزی ہوتی

گر کہیں حق کی کوئی آبرو ریزی ہوتی


فکر و فن، شعر و ادب کی بھی صلاحیت تھی

بحث و تحقیق کی اور نقد کی اہلیت تھی

اپنے مسلک کے لیے ان میں جو فدویت تھی

باعث رشک امارتؔ کی جو حیثیت تھی

آج اخلاف میں مصلحؔ دم اسلاف کہاں؟

جامع علم و ہنر، صاحب اوصاف کہاں؟

مصلحؔ نوشہروی(۲۶؍۱۰؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)

آپ کے تبصرے

3000