اتنے قلیل وقت میں کتنا بدل گیا
جاناں! تمھارے شہر کا نقشہ بدل گیا
اس کا پتا میں ڈھونڈ رہا ہوں گلی گلی
منزل بدل گئی ہے کہ رستہ بدل گیا
آنکھوں میں میں نے اشک چھپا تو لیے مگر
رخصت کے وقت میرا جو لہجہ بدل گیا
کیا جانے یاد آگیا کیا دفعتًا اسے
مجھ پر نگاہ پڑتے ہی چہرہ بدل گیا
اوروں کے واسطے جو سمجھتے تھے وہ حرام
جب خود پہ بات آئی نظریہ بدل گیا
کہتا ہے خود زمانہ کہ بدلے ہوئے ہیں لوگ
لوگوں کا ہے خیال زمانہ بدل گیا
منظر بدلتے دیکھے ہیں آنکھوں نے یوں سحؔر
اب یاد بھی نہیں ہے کہ کیا کیا بدل گیا
ماشاء اللہ عمدہ غزل