عجیب شخص ہوں دل میں اتر بھی سکتا ہوں

سراج عالم زخمی شعروسخن

معاملہ ہے وفا کا تو کر بھی سکتا ہوں

مگر یہ خوف کہ خود سے مکر بھی سکتا ہوں


نہ غور سے مجھے دیکھو، ذرا خیال رہے

عجیب شخص ہوں دل میں اتر بھی سکتا ہوں


میں نفرتوں میں رہا ہوں اسی کا خوگر ہوں

تمھارے پیار کی شدت سے ڈر بھی سکتا ہوں


جفائیں آج ہی کر ڈالو، کل پہ مت ٹالو

غریب فرد ہوں فاقوں سے مر بھی سکتا ہوں


حدیں بنا کے وہ کہتے ہیں میں دیوانہ ہوں

اگر یہ سچ ہے تو حد سے گذر بھی سکتا ہوں


مرے ہی خواب نہ دیکھو کہ خواب میں اک دن

کبھی جو موڈ بنا تو ٹھہر بھی سکتا ہوں

آپ کے تبصرے

3000