ماہ شعبان کے روزے: چند وضاحتیں

محمد اشفاق سلفی عبادات

الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى وبعد!
ماہ شعبان ہجری تقویم کا آٹھواں مہینہ اور نیکیوں کا خاص موسم ہے۔ اس ماہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت نفلی روزے رکھتے تھے ۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ نہیں رکھا البتہ سب سے زیادہ نفلی روزے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں رکھا کرتے تھے۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم، حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم، فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر إلا رمضان، وما رأيته أكثر صياما منه في شعبان
(صحیح بخاری :۱۹۷۹،صحیح مسلم :۱۱۵۶)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے:
لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرا أكثر من شعبان، فإنه كان يصوم شعبان كله
(صحیح بخاری:۱۹۷۰، صحیح مسلم:۱۱۵۶) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے کا نفلی روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کا روزہ رکھتے تھے۔
اس حدیث میں ’پورے ماہ‘ سے اکثر ایام مراد ہیں نہ کہ مکمل مہینہ اگر چہ بعض اہل علم نے ’اکثر روزے‘ اور ’کل روزے‘ والی حدیثوں کے درمیان یہ تطبیق دی ہے کہ کسی سال اکثر ایام کے روزے رکھتے اور کسی سال پورا مہینہ ہى روزہ سے ہوا کرتے تھے ۔ پہلی بات زیادہ صحیح ہے ، اس کی تائید صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا كى حديث بروايت عبد الله بن شقيق اور سنن نسائی میں بروايت سعد بن ہشام ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں:
ولا صام رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرا كاملا منذ قدم المدينة غیر رمضان
(صحیح مسلم:۱۱۵۶، سنن سنائی:۲۳۵۱)جب سے آپ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے سوائے رمضان کے کسی مہینے کا مکمل روزہ نہیں رکھا۔
شعبان میں بکثرت روزہ رکھنے کی کئی وجوہات اہل علم نے بیان کی ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی بات وہی ہے جس کا بیان خود زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ صا در ہوا ہے:
ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ
(سنن کبری نسائی:۲۳۵۹،وغیرہ وحسنہ الالبانی فی صحیح الجامع:۳۷۱۱)حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماہ شعبان میں بکثرت روزہ رکھنے کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان ہونے کی وجہ سے لوگوں کی غفلت کا شکار ہے جبکہ اس میں بندوں کے اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے اور اس کے حضور پیش کیے جاتے ہیں لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل بحالت روزہ اٹھایا جائے۔
ماہ شعبان سے لوگوں کی غفلت کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رجب حرمت والا مہینہ ہے اور ماہ رمضان ماہ صیام و نزول قرآن ہے۔ عام طور پر لوگ ماہ حرام اور ماہ صیام کا خاص اہتمام کرتے ہیں اور شعبان سے غفلت برتتے ہیں اور ماہ رجب میں روزہ رکھنے کو افضل جانتے ہیں جب كہ ماہ رجب میں خصوصی طور پر روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے۔ شعبان کے روزے دیگر تمام مہینوں کے نفلی روزوں سے افضل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار غیر مشہور واقعات اور جگہیں بلکہ افراد بھی مشہور کے مقابلہ میں افضل ہوتے ہیں ۔‌ دوسرا یہ کہ غفلت کے اوقات میں بندگی کی بجا آوری افضل عمل ہے اور اطاعت کرنے والا ریا سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
علاوہ ازیں بندوں کے اعمال کی رب العالمین کے حضور پیشی یومیہ، ہفتہ وار، سالانہ اور اختتامی یعنی موت کے بعد ہوتی ہے۔ روزانہ فرشتوں کی آمد و رفت عصر وفجر کے وقت ہوتی ہے اور اللہ تعالی بندوں کی حالت دریافت کرتا ہے، ہفتہ میں سوموار اور جمعرات کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں، ماہ شعبان میں سالانہ پیشی ہوتی ہے ،جبکہ موت کے بعد پوری زندگی کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، لہذا روایتوں میں باہمی تعارض نہیں ہے۔ اللہ تعالی پر کسی کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ہے پھر بھی پیشی کے بعد پیشی حکمت پر مبنی ہے جسے اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔ تاہم ان اوقات کی ہمارے لیے فضیلت ظاہر ہے کہ ہم اعمال کے اٹھائے جانے کے موقعوں پر بطور خاص اعمال مسنونہ کو بجا لائیں اور رب تعالی کی رضا و خوشنودی کے مستحق بنیں۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے ماہ شعبان کے روزوں کی افضلیت کی ایک علت یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ روزے ٹھیک ماہ رمضان کے فرض روزوں سے پہلے رکھے جاتے ہیں تو گویا ان کی حیثیت نماز فرض سے قبل ادا کی جانے والی سنت مؤکدہ کی ہے، جو عام نفلوں سے بہتر و افضل ہے اور اسی طرح ماہ شوال کے چھ روزےفرض نمازوں کے بعد ادا کی جانے والی سنت مؤکدہ کی طرح ہیں۔ بہرحال جو نوافل فرض سے آگے اور پیچھے ہوتے ہیں وہ مطلق نوافل کے مقابلے میں افضل ہوتے ہیں۔
یہاں اس تعارض کا دفعیہ بھی مناسب ہے کہ ایک طرف تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ماہ شعبان میں بکثرت روزہ رکھنے کا تھا اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
افضل الصیام بعد رمضان شهر الله المحرم
(صحیح مسلم :۱۱۶۳عن ابی ھریرہ)
ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام – جسےبطور تکریم شہر اللہ (اللہ کا مہینہ) کہا گیا ہے- کے روزے ہیں۔ اہل علم نے یہ تطبیق دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا تو محرم الحرام کے روزے کی افضلیت کا علم اخیر عمر میں ہوا ہوگا جس کے سبب آپ اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکے یا پھر آپ سفر اور بیماری کے سبب محرم کے بکثرت روزہ رکھنے سے معذور رہے ہوں یا پھر اس کو نفل مطلق پر محمول کیا جائے۔
دوسری ایک حدیث جو نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے اور محققین کی ایک جماعت نے اس کی تصحیح فرمائی ہے:
اذا انتصف شعبان فلا تصوموا حتی یکون رمضان
(اخرجہ اھل السنن عن ابی ھریرہ، صحیح الجامع:۳۹۷)
اس روایت کے تعلق سے امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا معنی بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی ماہ شعبان کے نصف اول میں روزہ سے نہ ہو اور جب نصف آخر آ جائے تو رمضان کے پیش نظر روزے رکھنا شروع کر دے ، جیسا کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں لکھا ہے کہ شعبان کو رمضان سے نہ ملاؤ یا تو پورا شعبان روزہ رکھو یا پھر آخر ماہ میں روزہ رکھنے کی کسی کی عادت ہو تو وہ روزہ رکھے۔
لہذا شعبان کی ۱۶تاریخ سے آخر ماہ تک آدمی اپنے فرض روزوں کی قضا کر سکتا ہے، منت کے روزے رکھ سکتا ہے اور اسی طرح کسی کی عادت سوموار اور جمعرات کے روزہ رکھنے کی ہو یا وہ جو ایک دن روزہ اور دوسرے دن افطار کرتا ہو تو ایسے سبھی لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يتقدمن أحدكم رمضان بصيام يوم أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصمه
(صحيح بخاری:۱۹۱۴، صحيح مسلم:۱۰۸۲)
یعنی کوئی شخص احتیاطی طور پر شعبان کے آخری ایک دو دنوں کا روزہ نہ رکھے کیونکہ رمضان کا روزہ رویت ہلال پر موقوف ہے ۔ لہذا احتیاط کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں اگر کوئی اپنی عادت کے مطابق سوموار یا جمعرات کا دن ہونے کی وجہ سے رکھے تو اور بات ہے، اور اسی بات پر حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کو بھی محمول کیا جائے گا جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا کسی دوسرے صحابی سے کہا:
أصمت من سرر شعبان ………إلی آخرالحديث
(صحیح بخاری:۱۹۸۳، صحیح مسلم:۱۱۶۱)
کیا تم نے شعبان کے آخری ایام میں (جن میں چاند روپوش ہوتا ہے ) کے روزے رکھے؟ کہا نہیں آپ نے فرمایا جب رمضان گزر جائے تو دو دن روزہ رکھ لینا۔
عمر ان بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ یا کوئی دوسرے صحابی رضی اللہ تعالی عنہ اخیر ماہ میں عادتا روزہ رکھا کرتے تھے یا نذر کا روزہ رہا ہو جسے انھوں نے ماہ رمضان کی آمد کے انديشہ سے یا ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت کی وجہ سے نہ رکھا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اندیشہ کودور فرمایا کہ صوم معتاد ممانعت کے اندر داخل نہیں ہے۔
پندرہویں شعبان کا ایک روزہ
پندرہویں شعبان کے ایک روزہ کی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے سنن ابن ماجہ میں مروی ہے:
إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها”…. إلخ
(سنن ابن ماجہ:۱۳۸۸)
یعنی جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو رات میں قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٍ غروب آفتاب سے طلوع فجر تک نچلے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ: ہےکوئی مغفرت کا طالب کہ میں اسے بخش دوں ، ہے کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اسے روزی عطا کروں اور ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے عافیت نصیب کروں اور ہے کوئی، اور ہے کوئی ۔۔۔۔ الخ۔
واضح ہو کہ اس روایت کی سند میں ابن ابی سبرہ -ابو بکر بن عبد اللہ بن محمد بن سبرہ- ہے جسے امام احمد اور یحیٰ ابن معین رحمہما اللہ نے حدیث گھڑنے والا بتایا ہے، علامہ ابوالحسنات لکھنوی رحمہ اللہ نے من گھڑت احادیث کے ضمن میں مذکور روایت کو بیان کیا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ضعیف اور امام نسائی رحمہ اللہ نے متروک کہا ہے، امام البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف جدا یا موضوع کہا ہے۔ (تحفة الأحوذی :۳/۳۶۶، تخریج الالبانی علی سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۳۸۸، الآثار المرفوعة صفحه:۸۰-۸۱)
لہٰذا اس روایت سے استدلال جائز نہیں ہے۔
ماہ شعبان میں ایام بیض کے روزوں کا حکم:
ایام بیض سے ہر قمری مہینہ کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخیں مراد ہیں، جن میں راتیں بھی دن کی مانند روشن ہوتی ہیں ان ایام کے روزے (ماہ رمضان کو چھوڑ کر) با فضیلت ہیں اور ثواب میں ایک مہینہ کے روزوں کے برابر ہیں کیونکہ نیکیاں (کم از کم) دس گنا بڑھائی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر مہینہ تین روزے رکھنے والا شخص سال بھر روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ اس سلسلے میں صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے (صحیح بخاری حدیث نمبر:۱۱۲۴ ، صحیح مسلم:۷۲۱ ) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہما سے (صحیح بخاری : ۱۸۷۴ ، صحیح مسلم:۱۱۵۹ ) اور ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے (سنن ترمذی:۷۶۱، سنن نسائی :۲۴۲۴) بسند حسن، احادیث مروی ہیں۔
یقینا سنن و نوافل پر مداومت کرنا افضل ہے ، تاہم اگر کوئی کسی مہینے میں ایام بیض کے روزے رکھے اور کسی مہینے میں چھوڑدے تو کوئی حرج نہیں، لہذا ایام بیض کے روزے کی نیت سے اگر کوئی شخص ماہ شعبان میں روزے رکھتا ہے تو جائز ہے۔ لیکن اگر کسی کے پیش نظر پندرہویں شعبان کے قیام اللیل اور ایک دن کے روزہ کی فضیلت میں وارد موضوع اور من گھڑت روایت ہو اور وہ بطور حیلہ دو دن تیرہویں اور چودہویں کے روزے بھی رکھتا ہو تو یہ عمل غیر مشروع ہوگا کیونکہ روزہ رکھنے والے کا بنیادی مقصد صرف پندرہویں شعبان کا روزہ ہے نہ کہ ایام بیض کے روزے۔ علامہ شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ تعالی نے اپنے فتوی ٰمیں مذکورہ تفصیل بیان کی ہے جو مزاج شریعت کے عین مطابق ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mo Mubarak Rain

ماشاء اللہ
بہت علمی موضوع ہے اور مدلل تحریر
بارك الله فى علمك و نفع بك الإسلام والمسلمين آمين