عہد شکنی: شکلیں، اثرات اور علاج

تسلیم حفاظ عالی معاملات

اخلاقیات ومعاملات میں شفافیت کے بغیر انسانی سماج کی صالحیت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ مذہب اسلام نے انسانی معاشرے کوپر امن ،صالح اور خوشگوار بنانے کے لیے جن سنہری اصول وضوابط کی رہنمائی کی ہے ان میں سےایک ایفاے عہدبھی ہے ۔ کتاب وسنت میں متعدد مقامات پر وعدہ پورا کرنے کی تلقین اور اس پراجروثواب کی بشارت دی گئی ہےاور عہد شکنی کی مذمت اور اس پرشدیدعذاب و عقاب کی وعید سنائی گئی ہے ۔معاملات میں شفافیت اور باہمی عہد وپیمان کو پورا کرنے سے معاشرے میں امن وامان اور سکون واطمینان کی خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے ،جبکہ باہمی عہود و مواثیق کی عدم پابندی اور دھوکہ دہی و فریب کاری سے سماج میں بے سکونی وبے اطمینانی کی لہر دوڑ نے لگتی ہے۔عہد شکنی وہ شجر خبیث ہے جس کے پھل زہریلے،شاخیں خاردار اور پتے اس قدر زہرآلودہ ہیں کہ لطیف وخوشگوار ہوا بھی ان سے مس ہونے کے بعد اپنی لطافت وخوشگواری کھوکر باد سموم بن جاتی ہےاور معاشرے کی فضا کو مسموم بنادیتی ہے۔پھر چہار طرف زہرافشانی کا سیلاب امنڈنے لگتا ہے، اختلافات وتنازعات کا طوفان بپا ہو جاتا ہے، ہر طرف فسادانگیزیوں اور عربدہ جوئیوں کا بازار گرم ہوجاتا ہے، باہمی یگانگت اور محبت و الفت کی جگہ رنجشیں، کدورتیں اور عداوتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ انسانی سماج کو تمام طرح کی شرانگیزیوں اور اخلاقی کمزوریوں سے پاک وصاف رکھنے کے لیے مذہب اسلام نے دیگر متنوع زریں احکام وقوانین پرکاربند رہنے کی تاکیدکے ساتھ ساتھ ایفاے عہد پربھی بہت زیادہ زور دیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ
(المائدۃ:۱)اے ایمان والو! عہدوپیماں پورے کرو۔
اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں موجود لفظ ’عقود‘عام ہے،اس سے مراد وہ تمام احکام الہی ہیں جن کا اللہ نے انسانوں کو مکلف ٹھہرایا ہےاور وہ تمام عقودوعہود بھی ہیں جو انسانوں کے درمیان دنیوی معاملات کے بارے میں طے پاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے بھی اپنے ارشادات وفرامین کے ذریعہ ایفاے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی قباحت کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ آپ ﷺنےنقض عہد کومنافق کی تین نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ( صحيح مسلم: ۲۱۰)
منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
عہدشکنی کی متعدد شکلیں ہیں ،ذیل میں چند کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
۱۔اللہ تعالی کے عہد کو توڑنا،اس کے احکام وفرامین کی تابعداداری نہ کرنا،اس کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کرنااوراس کے رسول ﷺکے ارشادات و فرمودات کے مطابق زندگی نہ گزارنا،وغیرہ۔
۲۔امام وقت کے عہد کو توڑنا،معروف اور بھلائی کے کاموں میں اس کی اطاعت نہ کرنا،دین الہی کی نصرت اور اس کی نشرواشاعت میں اس کا ساتھ نہ دینا اور بنا کسی عذرشرعی کے اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا۔
۳۔ذمی،مستامن اور معاہد کےحق میں شارع کی طرف سے دیے ہوئے عہد کو بنا کسی شرعی سبب کے توڑنا۔آپ ﷺ نے فرمایا:
مَن قَتَلَ مُعاهَدًا لَمْ يَرِحْ رائِحَةَ الجَنَّةِ، وإنَّ رِيحَها تُوجَدُ مِن مَسِيرَةِ أرْبَعِينَ عامًا
(صحيح بخاری:۳۱۶۶)جس نے کسی ذمی کو(ناحق) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے سونگھی جا سکتی ہے۔
۴۔عام معاملات زندگی میں کسی سے وعدہ کرکے بغیر کسی شرعی عذر کے اسے توڑ دینا۔[آفات على الطريق لسيد محمد نوح :۸۰-۸۲- بتصرف]
عہدشکنی کے اثرات:
جس طرح ایفاے عہد سےمعاشرے کی فضا خوشگوار ہوتی ہے اوراس کے خوش کن فوائد اورنفع بخش نتائج سے افراد معاشرہ محظوظ ہوتے ہیں ،اسی طرح نقض عہد کے نہایت ہی خطرناک اور مضراثرات فردوجماعت پر مرتب ہوتے ہیں۔ ذیل میں چند کاذکرکیا گیا ہے۔
۱۔اللہ تعالی کے عہد کو توڑنے والا کافر ہے:اللہ تعالی نے کفر اور نقض عہد کے باہمی ربط و تعلق کو قرآن کریم کے متعدد مقامات پر واضح کیا ہے۔اللہ کا فرمان ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُواْ مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُواْ قَالُواْ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُواْ فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ
(البقرۃ :۹۳)اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور طور پہاڑ کو تمھارے اوپر اٹھایا(اور کہا) کہ جو ہم نے تمھیں دیا ہے اسے پوری قوت کے ساتھ تھام لو اور سنو، تو انھوں نے کہا ہم نے سن لیا اور ہم کرنے کے نہیں،اور ان کے دلوں میں،ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت بٹھادی گئی۔آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو تمھارا ایمان تمھیں بڑی بری بات کا حکم دیتا ہے۔
۲۔عہد شکن کا انجام گھاٹےاور خیبت وخسران پر منتج ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
(البقرۃ :۲۷)جو اللہ سے کیے گئے عہد کوتوڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہےاسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
۳۔اللہ تعالی عہد شکن کا دل سخت کردیتا ہے اور وہ مستحق لعنت قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىَ خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلاً
(المائدۃ:۱۳)پھر جب انھوں نے بد عہدی کی تو ہم نے ان پر لعنت بھیج دی،اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا،چنانچہ وہ (اللہ کے) کلام میں لفظی (اور معنوی) تحریف پیدا کرنے لگے،اور جن باتوں کی انھیں نصیحت کی گئی تھی ان کا ایک بڑا حصہ فراموش کربیٹھے، اور ان میں سے چند کے علاوہ آپ کو ہمیشہ ہی ان کی کسی نہ کسی خیانت کی اطلاع ہوتی رہے گی۔
۴۔نقض عہد کا ارتکاب کرنے والے لوگ باہمی دشمنی اور بغض وحسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی آپسی عداوت انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمِنَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللّهُ بِمَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ
(المائدة: ۱۴)اور جن لوگوں نے کہا کہ ہم نصاری ہیں،ہم نے ان سے بھی عہد لیا تھا،تو جن باتوں کی انھیں نصیحت کی گئی تھی ان کا ایک بڑا حصہ فراموش کربیٹھے، پھر ہم نے ان کے درمیان تا قیامت بغض و عداوت پیدا کردی اور عنقریب اللہ انھیں ان کے کیے کی خبر دے گا۔
۵۔اس منافقانہ روش کامآل بد کشت وخون اور قتل وتشرید پر منتہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لاَ يَتَّقُونَ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
(الأنفال: ۵۶-۵۷)جن کے ساتھ آپ نے کئی بار معاہدہ کیا اور وہ ہربار معاہدہ توڑتے رہے ہیں،اور وہ اللہ سے نہیں ڈرتے ہیں۔پس اگر آپ جنگ میں ان پر غالب آجائیں تو انھیں قتل کرکے ان دشمنوں کو تتربتر کردیجیے جو ان کے پیچھے موجود ہیں،شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
۶۔بدعہدی دنیاوی ذلت ورسوائی اور اخروی عذاب شدید کا سبب ہے۔ اللہ تعالی نے بنواسرائیل کی بدعہدی،غداری اور خیانت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ
[البقرة: ۸۵]کیا تم لوگ اللہ کی کتاب کے بعض حصوں کو مانتے ہواور بعض کا انکار کرتے ہو،پس تم میں سے جو کوئی ایسا کرےگا،اس کا بدلہ دنیا میں رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب کی طرف ان کا رخ موڑ دیا جائےگا۔
۷۔بدعہد اپنے برے انجام کو خود بھگتتا ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:
فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ
(الفتح: ۱۰)پس جو بد عہدی کرےگا،تو اس بدعہدی کا برا انجام اسی کو ملے گا۔
اخروی ثواب وعقاب پر ایمان وایقان نہ ہو تو جہاں نیکی کرنے کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے وہیں معاصی وسیئات کا مرتکب شتربےمہار بن کر دشت گناہ میں دندناتا پھرتا ہے،اسے کسی چیز کی پروا ہوتی ہی نہیں ۔ کیفرکردار تک پہنچنے کاخوف مجرم کی جرم کیشی کی شدت میں کمی ضرور کرتا ہے۔ذہن ودماغ کےگوشے گوشے اور قلب وجگر کے ریشے ریشے میں اگر گناہوں کا خطرناک انجام منقوش ہوجائے تو مجال نہیں کہ کوئی ڈھٹائی کے ساتھ معاصی کامرتکب ہوتا رہے۔دیگر گناہوں کی طرح بد عہدی کے مرض سے شفایابی کے طریقوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس کے خطرناک اور برے انجام کو اپنی لوح ذہن پر اچھی طرح مرتسم کرلے۔ عہدشکنی کو متعدد علماے دین نے کبائر میں شمار کیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عَدُّ هَذَا مِنَ الْكَبَائِرِ هُوَ مَا وَقَعَ فِيْ كَلَامِ غَيْرِ وَاحِدٍ
(الزواجر عن اقتراف الكبائر:۱/۱۸۲) متعدد علما کے کلام میں نقضِ عہد کو کبائر(کبیرہ گناہوں) میں شمار کیا گیا ہے۔
قیامت کے دن بندوں سے عہود ومواثیق کے بارے میں پوچھا جائےگا،اگر کسی نے بے سبب نقض عہد کیا ہوگا تو اس دن اس کی سزا اسے بھگتنی ہوگی۔اللہ تعالی نے ایفاے عہد کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً
(الإسراء:۳۴)اور عہد وپیمان کو پورا کرو،بےشک عہدومیثاق کے بارے میں(قیامت کے دن ) پوچھا جائےگا۔
عہد شکنی نفاق کی علامت ہے جب کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن نہ اللہ تعالی کے عہودومواثیق کو توڑکر اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہےاور نہ ہی اپنی معاشرتی واجتماعی زندگی میں خائن،عہد شکن اور فریب کار بنتا ہے۔ اللہ تعالی نے مومنوں کی صفات جمیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
(مومنون: ۸)اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا خیال رکھتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں عہد شکنی کی جملہ شکلوں سے بچائے اور عہد وپیمان کی حفاظت ورعایت کی توفیق بخشے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000