تقلید: تعریف واقسام اور حکم

حافظ علیم الدین یوسف عقائد و نظریات

تقلید کی تعریف:
کسی ایسے شخص کے قول کو بلا دلیل مان لینا جس کا قول حجت نہیں بن سکتا۔
توضیح: اس تعریف کے مطابق تقلید میں دو چیزیں پائی جائیں گی:
۱۔اللہ، اللہ کے رسول کے علاوہ کسی اور کی بات ماننا۔
۲۔بیان کیے گئے قول پر کوئی دلیل پیش نہ کرنا۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی قول پر دلیل پیش کر دی جائے تو وہ تقلید نہیں کہلائے گا۔
تقلید کی کئی ایک صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
اندھی تقلید: اندھی تقلید سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک شخص کے تمام اقوال اس طرح قبول کرنا جیسے قرآن و حدیث کی باتوں کو قبول کیا جاتا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی قرآنی آیت یا حدیث بھی اس کے خلاف ہو پھر بھی اس کے قول کو نہ چھوڑنا جیسے وہ معصوم عن الخطا ہو۔
اس کی دو حالتیں ہیں:
۱۔اگر ایسا شخص عالم کی حلال کردہ چیز کو حلال اور حرام کردہ چیز کو حرام سمجھتا ہے، شریعت کی پرواہ نہیں کرتا ساتھ ساتھ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ عالم نے تحلیل و تحریم کے مسئلے میں شریعت کی مخالفت کی ہے، تو ایسا شخص کافر ہو جائے گا۔
مثال: کسی عالم نے نعوذبااللہ شراب کے بارے میں یہ فتویٰ دے دیا کہ وہ حلال ہے۔ جبکہ ایک عام مسلمان بھی یہ جانتا ہے کہ شراب حرام ہے۔لہذا اگر کوئی شخص اس عالم کی تقلید کرتے ہوئے شراب کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھے تو ایسا شخص کافر ہو جائے گا۔
دلیل:
اللہ رب العالمین کا فرمان:
اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله
عن عدي بن أبي حاتم رضي الله عنه يقول: سَمِعْتُ النبي ﷺ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ} حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا فَقُلْتُ: إِنَّا لَسْنَا نَعْبُدُهُمْ فَقَالَ: أَلَيْسَ يُحَرِّمُونَ مَا أَحَلَّ اللهُ فَتُحَرِّمُونَهُ؟ وَيُحِلُّونَ مَا حَرَّمَ اللهُ فَتَسْتَحِلُّونَهُ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَتِلْكَ عِبَادَتُهُمْ

۲۔اور اگر تحلیل وتحریم کے علاوہ راجح اور مرجوح کے مسئلے میں دلیل کے واضح ہوجانے کے بعد بھی مخالفت کرتے ہوئے اپنے مسلک کے امام کی تقلید کرتا ہے تو ایسا شخص گناہ گار ہوگا۔
دلائل:
پہلی دلیل:
اللہ رب العالمین کا فرمان:
فَلۡيَحۡذَرِ الَّذِيۡنَ يُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِهٖۤ اَنۡ تُصِيۡبَهُمۡ فِتۡنَةٌ اَوۡ يُصِيۡبَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ
(لہذا ان لوگوں کو خوف رکھنا چاہیے جو نبی اکرم ﷺ کے حکم سے اعراض کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں کہ کہیں انھیں کوئی فتنہ نہ آ پکڑے یا انھیں کسی درد ناک عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑے)
فتنہ سے مراد یہاں کفر کا فتنہ ہے جیسا کہ امام مقاتل، سدی اور عبد الرحمن بن زید بن اسلم رحمہم اللہ کی تفسیر ہے۔اور درد ناک عذاب سے مراد دنیا میں ہلاکت ہے۔ جیسا کہ امام مقاتل رحمہ اللہ کی تفسیر ہے۔
دوسری دلیل: اجماع ہے۔
قال الإمام الشافعي رحمه الله:أجمع المسلمون على أن من استبان له سنةٌ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحلَّ له أن يدعها لقول أحد
(امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کسی کو سنت رسول ﷺ کا علم ہوگیا پھر اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے کسی دوسرے کے قول کی وجہ سے چھوڑ دے)
وجہ استدلال: امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ سنت واضح ہو جانے کے بعد اس کی مخالفت حلال نہیں ہے۔
تقلید کی دوسری صورت:
ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا۔
اس کی کئی ایک حالتیں ہیں:
۱۔ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی فقہ کو لے کر اس پر تفقہ حاصل کرنا۔
یہ صورت خاص اصطلاح میں ’تمذهب‘ کہلاتی ہے۔جیسا کہ ہمارے بعض اہل حدیث مدارس میں بھی فقہ حنفی پڑھائی جاتی ہے۔یہ صورت جائز ہے کیوں کہ فقہی مسائل کو ضبط کرنے کا سب سے بہترین طریقہ کسی فقہی متن کو یاد کرنا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کو ہر باب کے اغلب مسائل حفظ ہوں گے۔البتہ یہ یاد رہے کہ یہ صورت تقلید کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔
میرا اسے تقلید کی صورتوں میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس صورت کو ذکر کرکے بعض لوگ اصل تقلید کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔جب کہ تقلید الگ شی ہے اور ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی فقہ پڑھ کر تفقہ حاصل کرنا دوسری شی ہے جو تمذهب کہلاتا ہے۔
۲۔ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی طرف مجرد اس وجہ سے نسبت کرنا کہ آپ ان کی فقہ پڑھتے یا اس سے لگاؤ رکھتے ہیں۔البتہ مسائل میں ترجیح، دلائل کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں خواہ امام کا قول اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔یہ بھی تمذھب کی ایک جائز صورت ہے۔
۳۔کسی ایک امام کی فقہ پڑھ کر ان کے تمام اقوال کو مکمل طریقے سے قبول کرنا خواہ احادیث کی مخالفت ہی کیوں نہ لازم آئے۔یہ تمذھب اور تقلید کی ملی جلی صورت ہے اور یہ اندھی تقلید میں داخل ہے۔
۴۔عوام الناس کو کسی ایک امام کی فقہ کا پابند بنانا۔یعنی یہ کہنا کہ تمام لوگوں کے لیے ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک تقلید کرنا لازم ہے۔یہ ایک بدعت ہے جس کا سلف سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ یہ چوتھی صدی ہجری کے بعد وجود میں آیا۔
چنانچہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنا نعلم بالضرورة أنه لم يكن في عصر الصحابة رجل واحد اتخذ رجلًا منهم يقلّده في جميع أقواله فلم يسقط منها شيئًا، وأسقط أقوال غيره فلم يأخذ منها شيئًا. ونعلم بالضرورة أن هذا لم يكن في عصر التابعين ولا تابعي التابعين، فليكذبنا المقلدون برجل واحد سلك سبيلهم الوخيمة في القرون الفضيلة على لسان رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- وإنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذموم على لسان رسول الله -صلى اللَّه عليه وسلم

ترجمہ: ہم یقینی طور سے یہ بات جانتے ہیں کہ عصر صحابہ میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ملتا ہے جس نے کسی ایک عالم کے تمام اقوال میں اس کی تقلید کی ہو، کسی ایک مسئلہ میں بھی اس کی تقلید نہ چھوڑی ہو اور باقی دوسرے تمام علماء کے تمام اقوال مکمل طور سے چھوڑ دیے ہوں، ایک بھی قول نہ لیا ہو۔ہمیں یہ بھی یقینی طور سے معلوم ہے کہ تقلید کی یہ صورت تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں بھی نہ تھی۔ مقلد حضرات ایک جھوٹا واقعہ ہی دکھا دیں جس میں یہ موجود ہو کہ ایک شخص نے ان زمانوں میں جن کے فاضل ہونے کی خبر نبی ﷺ نے دی ہے، ان میں ویسی ہی تقلید کی ہو جیسی کہ یہ مقلدین کرتے ہیں۔یہ چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے، جس صدی کو نبی اکرم ﷺ نے مذموم قرار دیا ہے۔
لہذا تقلید کی یہ قسم اور اس سے پہلے بیان کی گئی وہ اقسام جو ’اندھی تقلید‘ کہلاتے ہیں وہ سب کے سب مذموم ہیں گر چہ اختلاف کرنے والے اس میں اختلاف کریں۔
تقلید کا حکم، فریقین کے دلائل اور راجح:
تقلید کے حکم کے سلسلے میں علماء کرام نے اختلاف کیا ہے۔
پہلا قول: تقلید واجب ہے۔
دلائل:
پہلی دلیل:
اللہ رب العالمین کا فرمان:
وأولي الأمر منكم
(اور اولو الامر کی اطاعت کرو)
وجہ استدلال: اللہ رب العالمین نے مؤمنين کو علماء کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اسی کو تقلید کہتے ہیں۔
دوسری دلیل:
اللہ رب العالمین کا فرمان:
فَاسْأَلُوا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
(لہذا اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے)
وجہ استدلال: اللہ رب العالمین نے اہل علم سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور علماء سے سوال کرنے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی تقلید واجب ہے کیونکہ سوال کرتے ہی اس لیے ہیں تا کہ عمل کیا جائے۔
تیسری دلیل:
يَوۡمَ نَدۡعُوۡا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمۡ‌ۚ فَمَنۡ اُوۡتِىَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيۡنِهٖ فَاُولٰۤئِكَ يَقۡرَءُوۡنَ كِتٰبَهُمۡ وَلَا يُظۡلَمُوۡنَ فَتِيۡلًا
(جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے پیشوا سمیت بلائیں گے۔ پھر جن کا بھی اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو شوق سے اپنا نامہ اعمال پڑھنے لگیں گے اور دھاگے کے برابر (ذرہ برابر) بھی ظلم نہ کیے جائیں گے)
وجہ استدلال: اللہ رب العالمین نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ قیامت کے دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے۔لہذا چاروں ائمہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کرنی واجب ہے۔
دوسرا قول: تقلید حرام ہے۔
دلائل:
اللہ رب العالمین کا فرمان:
اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِه اَوۡلِيَآءَ‌ قَلِيۡلًا مَّا تَذَكَّرُوۡنَ
(تم لوگ اس کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی پیروی مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو)
وجہ استدلال: اللہ رب العالمین نے تمام لوگوں کو صرف اسی چیز کی اتباع کا حکم دیا ہے جو اللہ نے نازل کی اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کی اتباع سے منع کیا ہے۔
واضح ہو کہ اللہ نے جو نازل کیا ہے وہ قرآن اور حدیث ہے۔ اور قرآن و حدیث میں مذکور احکام میں تقلید کا حکم نہیں ہے لہذا تقلید کرنا قرآن و حدیث کے علاوہ کسی اور حکم کو ماننا ہے۔
دوسری دلیل:
اللہ رب العالمین کا فرمان:
يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله و أطيعوا الرسول

وجہ استدلال: اللہ رب العالمین نے تمام مومنین کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔لہذا تمام مومنوں پر واجب یہی ہے کہ وہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں، تقلید نہیں۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب:
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے اسی آیت میں فرمایا:
وأولي الأمر منكم
(اور اہل علم کی اطاعت کرو)
اور اہل علم کی اطاعت کرنا ہی تقلید ہے۔
جواب: اللہ رب العالمین نے اس آیت میں صرف دو ذات کی اطاعت کا حکم دیا ہے:
۱۔اللہ کی اطاعت
۲۔اللہ کے رسول کی اطاعت
اس سے یہ ثابت ہوا کہ اطاعت صرف دو ذات کی ہے۔ علماء کی اطاعت دونوں اطاعت کے تابع ہوگی۔ اسے یوں بھی کہہ لیں کہ جب قرآن کی کوئی آیت یا کوئی حدیث آجائے تو ہمیں کسی اور کے قول کی یا کسی اور کی تائید کی ضرورت نہیں ہوگی، مگر علماء کا قول لیتے وقت قرآن و حدیث کی تائید ہونی ضروری ہے۔یعنی عالم کا قول اسی وقت تسلیم کیا جائے گا جب وہ قرآن و حدیث کے مخالف نہ ہو۔
پہلے قول کے دلائل کے جوابات:
پہلا جواب:
اگر اس آیت سے علماء کی تقلید کا ثبوت ملتا ہے تو پھر اسی آیت سے حاکم کی تقلید بھی واجب ہونی چاہیے تھی۔
لہذا آپ کے بقول: جس طرح اس آیت سے استدلال کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ علماء کی تقلید واجب ہے اور ان کی مخالفت ہر حال میں حرام ہے اسی طرح یہ بھی کہا جانا چاہیے کہ حاکموں کی اطاعت واجب ہے اور ان کی مخالفت بھی ہر حال میں حرام ہے جبکہ آپ لوگ ایسا نہیں کہتے۔
بلکہ یہ کہتے ہیں کہ: حاکم کی اطاعت تب تک کی جائے گی جب تک وہ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلہ دے، اگر اس کے علاوہ ہوا تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
پھر یہی بات علماء کے سلسلے میں کیوں نہیں کہتے؟؟؟
دوسرا جواب: اس آیت کے اگلے حصے: ’’اگر تمھارا آپس میں اختلاف ہوجائے‘‘ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ علماء کی اطاعت تب تک ہے جب تک کہ وہ متفق رہیں لیکن اختلاف کی صورت میں صرف اور صرف دلیل کو مانا جائے گا۔جبکہ آپ حضرات اختلاف کے وقت بھی تقلید ہی کرتے ہو بلکہ اسے واجب بھی کہتے ہو۔
لہذا اس آیت سے تقلید تو ثابت نہیں ہوتی ہے البتہ یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ تمام مسلمانوں پر اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی ہی اطاعت واجب ہے خصوصاً اختلافی مسائل میں۔
دوسری دلیل اور اس کا جواب:
پہلا جواب: اس آیت سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ لا علم شخص پر یہ واجب ہے کہ اہل علم سے سوال کرے۔
اس سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ سوال کے بعد اس کے قول کو لینا اور اس پر عمل کرنا اور اس عالم کی تقلید کرنا واجب ہے۔
اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ سوال کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ سائل نے مسئول کی تقلید کی، تو پھر یہی اصول ان آیات میں بھی چسپاں ہوگا کیا؟
اللہ رب العالمین کا فرمان:
وَيَسۡــئَلُوۡنَكَ عَنِ الرُّوۡحِ‌ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلًا
(اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے)
یہاں پوچھنے والے یہود ہیں، تو کیا کوئی یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ یہود نے نبی اکرم ﷺ کی تقلید کی؟
اللہ رب العالمین کا فرمان:
سل بني إسرائيل

اس آیت میں اللہ رب العالمین نے نبی اکرم ﷺ کو یہود سے سوال کرنے کا حکم دیا۔
تو کیا یہاں بھی آپ اپنا اصول فٹ کریں گے؟؟؟
دوسرا جواب: اس معنیٰ کی آیت قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر آئی ہے، انھی میں سے ایک سورہ نحل کی آیت ہے جس میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون، بالبينات والزبر( لہذا تم اہل علم سے سوال کر لو اگر تمھیں دلائل اور کتابوں کے بارے میں علم نہیں ہے)
امام شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
متعلّق بتعلمون عَلَى أَنَّهُ مَفْعُولُهُ وَالْبَاءُ زَائِدَةٌ، أَيْ: إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ
( اللہ رب العالمین کے اس قول ’بالبینات‘ میں ’ب‘ کا تعلق’لا تعلمون‘ سے ہے۔ لہذا ’البینات والزبر‘ مفعول بن جائے گا اور اس بنیاد پر معنیٰ یہ ہوگا کہ:
اگر تمھیں دلائل اور کتابوں کے بارے میں معلوم نہ ہو تو اہل علم سے ان دلائل کے بارے میں پوچھو۔
اس تفسیر سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ رب العالمین نے اہل علم سے دلائل طلب کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ ان کی تقلید کا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ مجرد سوال کا حکم دینا اس بات کی قطعی طور سے دلیل نہیں ہے کہ تقلید کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے. چہ جائے کہ دوسری آیت سے یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ یہ آیت رد تقلید میں ہے، تقلید کے اثبات میں نہیں۔
تیسری دلیل کا جواب:
پہلا جواب: بہتر یہ ہے کہ قرآن کی آیات کو اسی آیت کے سیاق و سباق سے سمجھا جائے تا کہ اگر معانی کے سمجھنے میں کوئی غلطی ہو رہی ہو تو سیاق و سباق سے اس کی تصحیح ہو جائے۔
اب اس آیت میں دیکھیں، اللہ رب العالمین نے اس جملہ کے بعد کہا: لہذا اس آیت میں تو نامۂ اعمال کے ساتھ بلانے کا ذکر ہے، چار اماموں کے ساتھ نہیں۔
دوسرا جواب: اگر آیت کے سیاق و سباق کو بھی ماننے سے کوئی انکار کرتا ہے تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ کیا صحابہ کرام بھی ان میں سے کسی ایک امام کے مقلد بن کر آئیں گے؟؟
یہ جواب دیں گے: نہیں!
تو ان سے پوچھیں گے کہ کیا وہ نجات پائیں گے؟
تو یہ کہیں گے: ہاں!
ہم کہیں گے کہ پھر ان کا امام کون ہے جن کے ساتھ یہ آئیں گے؟
یہ کہیں گے: رسول اللہ ﷺ
ہم کہیں گے پھر آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ: پانچ اماموں کے ماننے والے آئیں گے اور ان میں ایک رسول اللہ ﷺ ہیں جن کے ماننے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اور ہم بھی صحابہ کرام کے ہی نقش قدم پر ہیں۔ ہمارے بھی امام رسول اللہ ﷺہیں۔
اگر یہ کہیں کہ: ائمہ اربعہ کے آنے کے بعد صرف ان ہی کی تقلید جائز ہے، کسی دوسرے کی نہیں۔
تو ہم کہیں گے کہ آپ ہمیں صرف اتنا بتا دیں کہ کیا ائمہ اربعہ کے آنے کے بعد نبی اکرم ﷺ کی اتباع منسوخ ہو گئی ہے؟
یقیناً کوئی بھی عالم اس کے جواب میں ہاں کہنے کی جرات نہیں کرے گا۔
راجح:
مذکورہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ تقلید واجب نہیں ہے اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں:
۱۔قرآن و حدیث میں تقلید کے وجوب پر کوئی ایک بھی نص موجود نہیں ہے۔ یہ یاد رہے کہ عالم سے سوال کرنے کو واجب کہنا الگ مسئلہ ہے اور عالم کی تقلید کو واجب کہنا الگ مسئلہ ہے۔
۲۔تقلید کو واجب کہنا، واجب کی تعریف کے منافی ہے۔ کیوں کہ اصول الفقہ کی اصطلاح میں واجب کہتے ہیں: وہ کام جس کو لازمی طور سے کرنے کا شارع نے حکم دیا ہو۔
اس تعریف میں جو چیز ہمیں سمجھنی ہے وہ یہ کہ کوئی چیز واجب تب ہوتی ہے جب اس کے وجوب پر شرعی دلیل موجود ہو۔جبکہ تقلید کے وجوب پر کوئی بھی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔لہذا تقلید کو واجب کہنا، واجب کی تعریف کے منافی امر ہے۔
تقلید کی تیسری صورت:
تقلید کی تیسری صورت وہ ہے جسے بعض علماء تقلید کہتے ہیں جب کہ تقلید کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی بلکہ وہ اتباع میں داخل ہے۔اور وہ یہ ہے کہ کسی عالم سے شرعی مسئلہ میں جواب طلب کرنا۔
اس کی دو حالتیں ہیں:
۱۔سلف میں کسی عالم کی کتاب پڑھ کر اس سے جواب نکالنا۔
مذکورہ صورت میں اگر کتابیں صرف اس لیے دیکھ رہے ہیں کہ اسی مذہب پر رہیں گے، اس کے راجح کو راجح اور اس کے مرجوح کو ہی مرجوح سمجھیں گے تو اسی چیز کا نام اندھی تقلید ہے۔
ہاں اگر کتاب پڑھنے کا مقصد دلائل میں نظر کرنی ہو تا کہ اقوال مختلفہ میں دلائل کی بنیاد پر ترجیح کر سکے تو یہ جائز ہے۔البتہ یہ یاد رہے کہ یہ کام صرف طالب علموں کا یا صرف علماء کا ہے۔
۲۔کسی زندہ عالم سے کسی مسئلے میں کوئی فتویٰ طلب کرنا۔
جیسا کہ تقلید کی تعریف میں میں نے ذکر کیا تقلید بلا دلیل کسی چیز پر عمل کرنے کو کہتے ہیں۔جب کہ علماء سے سوال کرنے کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے۔چنانچہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
فَاسْأَلُوا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
(لہذا اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے)
اللہ رب العالمین نے اس آیت میں علماء سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے۔لہذا علماء سے سوال کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع کہلاتا ہے۔
۳۔جواب دیتے وقت علماء پر کیا واجب ہے؟
علماء پر واجب یہ ہے کہ سوال کا جواب دینے سے پہلے تحقیق کر لیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں وہ دین کا حکم ہے یا نہیں؟دلیل سے ثابت ہے یا نہیں؟حدیث صحیح ہے یا نہیں؟
دلیل:
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أفتي بفتيا غير ثبت، فإنما إثمه على من أفتاه

ایک روایت میں ہے:
من أفتي بغير علم كان إثمه على من أفتاه
(جس نے بلا تحقیق یا بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو فتویٰ دینے والا گناہ گار ہے)
لہذا کسی سائل کے سوال کا جواب دینے سے پہلے تحقیق کرنا واجب ہے۔ اور علم وتحقیق، تقلید کے منافی امر ہے۔ تقلید کا مطلب ہے کہ آپ پر تحقیق کے دورازے بند ہیں۔
اس سے واضح ہوا کہ کسی عالم سے فتویٰ لینا اتباع میں داخل ہے، ہاں اگر اس عالم نے تقلیدا فتویٰ دیا ہے تو وہ گنہگار ہے، سائل بری الذمہ ہے۔فتویٰ دینے والے یہ یاد رکھیں کہ ان سے سوال اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ وہ اللہ اور رسول کی بات بتائیں، نہ کہ اپنے مسلک کی بات بتائیں۔جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سلسلے میں منقول ہے کہ جب ان سے کسی مسئلے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ پہلے قرآن سے جواب دینے کی کوشش کرتے اور اگر قرآن میں نہیں پاتے تو حدیث رسول ﷺ سے جواب دینے کی کوشش کرتے، اس میں نہ ملتا تو حضرت ابو بکر یا حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے قول پر فتویٰ دیتے، اگر کہیں بھی جواب نہ پاتے تو پھر اپنا اجتہاد کرتے۔
خلاصہ
تقلید اپنی تمام صورتوں سمیت ایک مذموم شی ہے۔ البتہ چند ایک امور ہیں جنھیں بعض علماء تقلید کہتے ہیں جب کہ وہ تقلید میں داخل نہیں ہے۔ ان میں سے:
۱۔ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی فقہ پر تفقہ حاصل کرنا۔
تفقہ کے حصول کا دو طریقہ ہے:
(۱)حدیث کے ذریعے تفقہ حاصل کرنا
(۲)فقہی متون کے ذریعے تفقہ حاصل کرنا
۲۔کسی عالم سے فتویٰ پوچھنا۔
یہ اتباع میں داخل ہے، کیوں کہ علماء سے سوال کرنے کا حکم اللہ رب العالمین نے دیا ہے۔
بہر حال کوئی اسے تقلید کہے یا اتباع، علماء سے شرعی مسائل میں فتوی طلب کرنا از روئے دلیل جائز ہے۔بعض علماء اسی صورت کو تقلید کی جائز صورت گردانتے ہیں۔اور اسی بنیاد پر عوام کے لیے تقلید کے جواز کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ لیکن عوام الناس کو کسی ایک فقہ کا پابند بنانا اور یہ کہنا کہ حنفی مسلک کو ماننے والے حنفی مسلک کے علماء سے ہی سوال کر سکتے ہیں یہ ایک خالص بدعت ہے جس کا وجود قرونِ مفضلہ میں ہرگز نہ تھا بلکہ بعد کے ادوار میں یہ سب رائج ہوا۔
ایک اہم سوال :
کیا عام آدمی کا یہ کہنا صحیح ہے کہ: میں حنفی ہوں یا میں شافعی ہوں، وغیرہ؟
جواب: اس مسئلے میں علماء نے اختلاف کیا ہے، راجح یہ ہے کہ عام لوگوں کا خود کو حنفی، شافعی وغیرہ کہنا درست نہیں ہے۔
اس قول کے قائل شافعیہ کے اکثر علماء ہیں اور حنابلہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔
اسی قول کو علامہ ابن القیم، علامہ جلال الدین سیوطی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ابن عابدین حنفی رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔
وجہ ترجیح:
۱۔مسالک تو (بقول آپ مقلدین کے) کئی ایک ہیں، پھر عام انسان کس بنیاد پر کسی ایک مسلک کو اختیار کرے گا؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ غور وفکر کر کے اختیار کرے گا تو اسی فکر کا استعمال وہ دلائل کو سمجھنے میں کیوں نہیں کر سکتا؟
اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اسے اختیار ہے، چاروں مسالک میں سے جسے چاہے اختیار کرے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
۱۔اس اختیار کے دینے کی دليل کیا ہے؟ کیا اللہ نے یہ اختیار دیا ہے؟کیا اللہ کے رسول ﷺ نے یہ اختیار دیا ہے؟اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کس بنیاد پر آپ نے اختیار دیا؟
۲۔جس بنیاد پر آپ نے عوام کو کسی ایک مسلک کے اختیار کرنے کی اجازت دی ہے اسی بنیاد پر تمام مسلکوں سے الگ رہنے کی بھی اجازت کیوں نہیں مل سکتی؟
دوسری وجہ: اللہ رب العالمین نے عام لوگوں کو علماء سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح مسلک حنفی میں علماء پائے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے مسالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔
اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو کسی ایک مسلک سے جڑ کر رہنا ہوگا تو ایسی صورت میں ان کے لیے دوسرے مسالک کے علماء سے سوال کرنا جائز نہ ہوگا۔اور یہ قرآن کی صریح مخالفت ہے۔
لہذا راجح یہی ہے کہ عام لوگوں کا یہ کہنا کہ: میں حنفی ہوں، میں شافعی ہوں، درست نہیں ہے۔
ایک اہم نکتہ:
تقلید کے مسئلے میں جمہور علماء کا قول جواز کا ہے۔
اور جواز کا مطلب یہ ہے کہ:
اگر کوئی تقلید کرتا ہے تو اس پر نکیر نہیں کی جائے گی۔اور اگر کوئی تقلید نہیں کرتا ہے تو اسے گناہگار نہیں کہا جا سکتا ہے۔واضح ہو کہ جواز کی صورت تب نکلتی ہے جب دلیل کی مخالفت لازم نہ آئے۔اگر کوئی یہ جانتا ہے کہ ہمارے مسلک کے امام کے خلاف دلیل موجود ہے تو ایسی صورت میں دلیل پر ہی عمل کرنا ضروری ہے۔ ورنہ اسی کو اندھی تقلید کہتے ہیں جو شرعاً ممنوع ہے اور جس سے ائمہ اربعہ نے بھی منع کیا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000