جو چپ رہتا ہے زیادہ بولتا ہے

سراج عالم زخمی شعروسخن

ملاقاتوں کا لمحہ بولتا ہے

خموشی میں ارادہ بولتا ہے


نگاہوں کی بھی اپنی اک زباں ہے

نگاہوں کا اشارہ بولتا ہے


میں کیا ہوں کون ہوں مجھ سے نہ پوچھو

مری باتوں میں لہجہ بولتا ہے


ہزاروں لفظ سچائی کے پہنو

وہی سچ ہے جو چہرہ بولتا ہے


خموشی پر مری نالاں ہے دنیا

جو بولوں تو زمانہ بولتا ہے


جو کل تک مانگتا تھا بھیک سب سے

وہ خود کو شاہزادہ بولتا ہے


بہت طوفان ہے دل کی تہوں میں

یہ آنکھوں کا کنارا بولتا ہے


سبھی اہل زباں چپ ہیں و لیکن

لہو کا ایک قطرہ بولتا ہے


کوئی قیمت نہیں اب فکر و فن کی

حقیقت ہے کہ پیسہ بولتا ہے


اسے ڈسنے لگی ہے خود کلامی

جو چپ رہتا ہے زیادہ بولتا ہے


ابھی تک مجھ میں کوئی جی رہا ہے

ابھی دل کا پرندہ بولتا ہے


غزل ہے ایک دیوانوں کی بستی

یہاں ہر ایک مصرعہ بولتا ہے

آپ کے تبصرے

3000