میری روداد الم پر دل ہنسا بھی
اور شرمندہ نہیں اس پر ذرا بھی
بجھ گیا ہے دل تو اب یہ سوچتا ہوں
تھا کئی طوفاں کا حامل یہ دیا بھی
جنگ جاری ہے محبت اور انا میں
جھیلنی ہے دل کو اب اس کی سزا بھی
الجھنیں بھی زیست کی سلجھا رہا ہوں
اور ہاتھ آتا نہیں کوئی سرا بھی
میں نے سب رشتے جہاں سے توڑ ڈالے
سخت مشکل ہے خودی کا مرحلہ بھی
درد میں کام آرہا ہوں میں سبھی کے
اور مسیحائی سے ہوں نا آشنا بھی
یوں تو ناواقف ہوں فن شاعری سے
شاعری لیکن ہے میرا مشغلہ بھی
کیا بتاؤں رات کس کا ذکر نکلا
کتنی باتیں کر گیا مجھ سے خدا بھی
کچھ نہیں اک کھیل ہے دنیا بھی مخلصؔ
کچھ دنوں تو میں وہاں جاکر رہا بھی
آپ کے تبصرے