رمضان المبارک کا ماہ مقدس اپنی تمام تر جلوہ آرائیوں کے ساتھ ہمارے اوپر سایہ فگن ہونے والا ہے۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں اس ماہ مبارک کے فیوض و برکات سے اپنے دامن کو بھرنے اور اس کے تحائف و عطایا کو سمیٹنے کا زریں موقع دستیاب ہوگا۔بد بخت اور نامراد ہیں وہ لوگ جو اس مقدس ماہ کے فوائد و ثمرات سے محروم و تہی دست رہیں گے۔یقیناً اس ماہ کا پا لینا اور اس کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے صوم و صلات کی پابندی کر کے اپنی حیات مستعار میں صالح انقلاب لانا بڑی خوش بختی کی دلیل ہے ۔ایک حدیث میں اس ماہ کو پاکر اس کی برکات و نوازشات کو سمیٹنے والے کی بڑی شاندار فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں بیک وقت مشرف بہ اسلام ہوئے،اس کے بعد ان میں سے ایک آدمی زیادہ عبادت کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا، جبکہ دوسرا آدمی جو پہلےآدمی کی نسبت کم عبادت گزار تھا، اس کی شہادت کے ایک سال بعد فوت ہوا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ یہ دوسرا آدمی شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں داخل ہوا ہے، جب صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب لوگوں کو سنایا جس پر انھوں نے تعجب کا اظہار کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ (دوسرا آدمی ) پہلے آدمی کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا ؟ جس میں اس نے رمضان کا مہینہ پایا، اس کے روزے رکھے اور سال بھر اتنی اتنی نمازیں پڑھیں ؟ تو ان دونوں کے درمیان (جنت میں ) اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان۔(ابوداؤد :۳۹۲۵- صححه الألباني)
اس ماہ کی آمد کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خوشخبری سناتے اور انھیں مبارک باد دیتے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی آمد کی بشارت سناتے ہوئے فرمایا : تم پر ماہ رمضان سایہ فگن ہو چکا ہے جو کہ ایک با برکت مہینہ ہے، اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں،اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، متمردو سرکش شیاطین پا بجولاں کر دیے جاتے ہیں، اس میں اللہ کی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ،جو شخص اس کی خیر سے محروم ہوجائے وہی در اصل حرمان نصیب ہوتا ہے۔ (نسائی:۲۱۰۶- صححه الألباني)
رمضان کا مقدس مہینہ اپنے اندر فیوض و برکات کا بحر نا پیدا کنار لیے ہوئے ہے، ہمیں صرف غوطہ زنی کر کے اس کی تہ سے لعل و گوہر کو بلا خوف و خطر سمیٹنا ہے، کوئی مزاحم نہیں، کوئی مانع نہیں ،کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں۔دیگر مہینوں میں شیطان آزاد رہتا ہے جو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں رکاوٹیں ڈالتا ہے، نیکیوں سے دور رکھنے اور گناہوں میں مبتلا کرنے کی انتھک کوششیں کرتا رہتا ہے، لیکن اس عظیم مہینے کی شاندار خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شیطان اور سرکش جن پابند سلاسل کر دیے جاتے ہیں تاکہ خیر کے طلبگار کو کسی طرح کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور یقیناً متلاشیان خیر کے لیے یہ بہت بڑا مژدۂ جاں فزا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں صحابہ کرام کو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے پر ابھارا اور اس ماہ کی خصوصیات و فضائل کو مختلف احادیث میں اس قدر دلکش و حوصلہ انگیز انداز میں بیان کیا کہ ایک زنگ آلود، سیاہ دل اور گناہ گار ترین انسان جو کہ اپنے گناہوں میں از فرق تا بہ قدم غرق ہے، اس ماہ کی برکات و تجلیات کو سمیٹ کر اپنے دل کو صیقل کرنے کے لیے بے تاب ہو جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں چھوڑا جاتا۔ اور ایک اعلان کرنے والا پکار کر کہتا ہے:اے خیر کے طلبگار! آگے بڑھ، اور اے شر کے طلبگار! اب تو رک جا۔ (ترمذی:۶۸۳ـ صححه الألباني)
مذکورہ حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مژدے سنائے۔ایک یہ کہ اس ماہ کے آغاز ہوتے ہی شیاطین اور سر کش جن پابند سلاسل کر دیے جاتے ہیں تاکہ وہ روزےدار کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ان کے روزوں کو فاسد نہ کر سکیں، اور روزے دار روزوں کے تقاضوں کو بہ احسن طریق پورا سکیں۔ دوسرا یہ کہ اس ماہ میں جنت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ جہنم سے رستگاری اور جنت کی طلبگاری کا خواہاں شر کے تمام راستوں سے گریزاں ہوکر راہ خیر کا مکمل طور پر راہی بن جائے۔ تیسرا یہ کہ اس مہینے میں اللہ کی طرف سے ایک منادی یہ اعلان کرتا پھرتا ہے کہ اے نیکی و بھلائی کے کاموں کو تلاشنے والو، نیک اعمال کے طلبگارو ! اس ماہ کے سنہری مواقع کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرو اور اپنے آپ کو جنت کا مستحق بناؤ۔اور اے شر کے متلاشیو،معاصی و سیئات میں غرق رہنے والو، بد کرداری و بد اخلاقی کے دلدادو ! کم از کم اس ماہ مقدس کے تقدس کا خیال رکھ لو، اپنے کالے کرتوتوں سے باز آجاؤ، نیک اعمال نہیں کرسکتے تو کم سے کم اس عظیم مہینے کی عظمت کا پاس رکھتے ہوئے برے اعمال سے تو بچ جاؤ۔چوتھا یہ کہ اللہ تعالی اس مبارک مہینے میں اپنے فضل و کرم سے اپنے بہت سارے بندوں کو جہنم سے آزادی نصیب کرتا ہے اور بلا شبہ یہ بہت بڑا بیش قیمت تحفہ ہے بلکہ اس سے بڑا تحفہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص کو جہنم سے آزادی مل جائے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے، کیونکہ یہی در اصل کامیابی اور انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:
فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز(آل عمران:۱۸۵)پھر جس شخص کو آگ سے دور کردیا جائےگا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا یقیناً وہ کامیاب ہو جائے گا۔
اللہ تعالی ہمیں اس عظیم ماہ کی عظیم سوغات کا قدرداں بنائے اور اس ماہ مبارک کے فیوض و برکات سے مکمل طور پر مستفید و محظوظ ہونے کی توفیق بخشے۔آمین
آپ کے تبصرے