اذان دراصل پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ کی نماز کا وقت شروع ہونے اور آجانے کا اعلان اور بندوں کے لیے اللہ کی طرف سے ایک دعوت نامہ ہے جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو اپنے گھر آنے اور اس کے ذکر اور یاد میں نماز باجماعت ادا کرنے کی دعوت عام دے رہا ہے:
وَأقم الصلاۃ لذکری(طہ:۱۴)کہ میری ذکر اور یاد میں نماز قائم کرو۔
اذان کو اتنا عظیم رتبہ دیا گیا کہ اذان کے بعد پڑھی جانے والی دعا ’اللہم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ‘ کی روشنی میں اذان کو ایک مکمل دعوت اور پیغام (الدعوۃ التامۃ) قرار دیا گیا جس میں بندوں کے سامنے نہایت مختصر انداز میں اسلام کی حقانیت اور مکمل حقیقت کو پیش کیا گیا اور دن میں پانچ وقت یہ اعلان کرنے کا پابند کردیا گیا کہ وہ دین جس کے ایک عمل نماز کی طرف دعوت دی جارہی ہے، دراصل درج ذیل اہم مضامین پر مشتمل ہے:
(۱)اللہ کی عظمت و کبریائی:
اذان کے کلمات میں کئی بار ’اللہ اکبر اللہ اکبر‘ کے کلمات کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ ایک مسلمان کے نزدیک کوئی بھی چیز ،اس کا خاندان، اس کی زمین و جائیداد، اس کا کاروبار، اس کے اہل وعیال، اس کے رشتہ دار، یہاں تک کہ دنیا کی کسی دوسری عظیم سے عظیم چیز کی کوئی خاص حیثیت نہیں ۔اس کے نزدیک اصل حیثیت صرف اور صرف اللہ، اس کی ذات اور اس کے احکام کی ہےاور اللہ ہی اس کا اصل محور اور مرکز ہے۔ اور اس سے سب سے پہلا مطالبہ اللہ پر ایمان لانا ہے کہ جس کے بعد ہی دیگر نیکیاں باعث اجر و ثواب ہوں گی۔
(۲)توحید:
اذان کے کلمات میں ’أشھد أن لا الہ الا اللہ‘ در اصل اسلام کے سب سے بڑے اور اہم مضمون توحید کی وضاحت ہے جس میں اللہ کے علاوہ تمام دوسری چیزوں کے بذات خود بےحقیقت اور بے اختیار ہونے کے تذکرہ کے بعد، صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی الوہیت و عبادت اور تصرف و اختیار کو ماننے کی دعوت دی گئی ہے۔اور اس کے تقاضوں پر عمل اور اس کے منافی امور سے اجتناب کا پنج وقتہ عہد لیا جارہا ہے اور اس اعتبار سے اس کو اس مضمون توحید کی بار بار یاددہانی کہا جا سکتا ہے۔
(۳)رسالت:
اذان میں ’أشھد أن محمدا رسول اللہ‘ کے ذریعہ عقیدہ رسالت و نبوت کی تعلیم دی گئی کہ اسلام میں توحید کے بعد دوسرا سب سے بڑا اور اہم مطالبہ نبی اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان کر ان کی مکمل سچی اطاعت کرنا ہے کیونکہ آپ ’ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی‘(النجم:۳-۴) اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے جو بھی کہتے وہ وحی کو نقل اور بیان اور واضح کرنے کا کام کرتے تھے۔اور اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو ماننا اور ہر منع کی گئی بات سے رکنا لازم قرار دیا گیا:
ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا(الحشر:۷) کہ نبی کے احکام پر عمل کرو اور اس کی روکی گئی باتوں سے باز آجاؤ۔
(۴)نماز اوردیگر عبادات:
توحید ورسالت کی تعلیم کے بعد ’حی علی الصلوٰۃ‘ کے ذریعہ اسلام میں عبادات اور خاص طور پر نماز کی اہمیت ذہنوں میں بٹھا کر اس کی وقت پر پابندی، جماعت کے ساتھ اس کے اہتمام اور دن میں پانچ دفعہ اس کے لیے اس خصوصی ندا ’اذان‘ کی پکار پر مسجد کی طرف رخ کرکے اس کی ادائیگی کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے اور بندوں کو رب سے ہم کلامی کی سعادت عطا کرنے جیسی عظیم نعمت کی یاد دلائی گئی۔ اور اس طرح ہر وقت اللہ کے ذکر سے بندوں کو مربوط کرنے کی نہایت منظم کامیاب کوشش کی گئی:
أقم الصلوٰۃ لذکری(طہ:۱۴)کہ میری ذکر اور یاد میں نماز قائم کرو۔
(۵)کامیابی کی ضمانت:
اذان میں مذکورہ بالا مضامین، اللہ کی عظمت و کبریائی، توحید، رسالت اور عبادات خاص طور پر نماز کی جانب رہنمائی کے بعد ’حی علی الفلاح‘ کہہ کر ان تمام مضامین اور اس پر عمل کو دنیا و آخرت کی اصل کامیابی اور بھلائی قرار دیا اور اس کی طرف رجوع، توجہ اور اس کے مطابق عمل کا خصوصی مطالبہ کیا گیا اور ایسا کرنے پر کامیابی کی ضمانت دی گئی۔
(۶)اول و آخر اللہ کی کبریائی:
اذان کی ابتدا اور اخیر میں ’اللہ أکبر‘ کہہ کر یہ پیغام دیا گیا کہ ایک مسلمان سے سب سے پہلے اور سب سے آخر میں توحید اور اللہ کی کبریائی و عظمت کو ماننے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اوراللہ کی وحدانیت کے ماننے سے پہلے اس کے تمام نیک اعمال بے کار اور ضائع ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح اگر اس نے پوری زندگی نیک اعمال کیے لیکن آخری عمر میں توحید اور اللہ کی کبریائی و عظمت کا منکر ہو گیا تو بھی وہ کامیابی سے محروم ہی رہے گا۔
آپ کے تبصرے