خلافت و ملوکیت سے خلافت و ملوکیت کی تاریخی اورشرعی حیثیت تک: برصغیرکی اسلامی سیاست کا مطالعہ

سعد احمد سیاسیات

تقریبا تین صدیوں سے اسلامی فکر کا سیاسی نظام بڑے اضمحلال کا شکار ہے۔ گر چہ اسلام کے سیاسی نظام کا خاتمہ ہوئے دوصدیاں ہی گذریں ہیں مگر ان دوصدیوں سے پیوستہ صدی میں مسلم دنیا کا اضطراب نہ صر ف یہ کہ مسلمانوں کے لیے ایک حادثہ سے کم نہیں بلکہ غیر مسلم عوام اور دیگر قوموں کے لیے بھی انتہائی آزمائش کا سبب رہا ہے۔ اسلام کا تعلق دیگر اقوام سے کبھی بھی اس نوعیت کا نہیں تھا جس میں صرف جنگیں ہوں، صلیبی یورشیں ہوں یا اسلامی دنیا کےاندرونی خلفشار غیر مسلم آبادیوں کی قسمت طے کرتے ہوں ،بلکہ اسلا م کی مقبولیت ہی اسی لیے ہوئی کہ یہ سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی ذ مہ داری جس کے کندھے پر ہونی چاہیے اس کے کندھے پر ڈال دیتا ہے۔ چاہے وہ مسلم معاشرہ ہو یا غیر مسلم۔ اس ضمن میں اسلام کا تصور عدل اور اس کے مابعد الطبیعاتی نظام کے حوالے سیاست اور اصلاح کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ بلکہ یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کہ اسلام میں سیاست دراصل اصلاح کی جانب ایک قدم ہے ، اس کا محور استبداد(پاور)نہیں،اس کا مقصد اس مابعد الطبیعاتی نظام کو زندہ و تابندہ رکھنا ہے جس کا اطلاق آ فاقی نوعیت کا ہے۔ بہرحال، آگے آنے والی بحث کا ماحصل اسلام کی سیاسی تاریخ کی شروعات سے لے کر اب تک کی کارکردگی کا تجزیہ کر اسے سیاسی انتظام و انصرام کی دنیا میں نمایاں باور کرانا نہیں بلکہ ایک ایسا سوال کھڑا کرنا ہے جو ہمارے حال میں ایک اسلامی سیاست کی داغ بیل رکھ سکے اور جس سے مسلم معاشرے کے مستقبل کے مقاصد کو واضح طور سے دیکھا جاسکے۔لہذا، یہ مقالہ ، سیاست کی ان اہم بحثوں کا مطالعہ کرنا چاہتا ہےجوزمان کے اعتبار سے اگر ایسے وقت میں وارد ہوئیں جب دنیائے انسانیت میں میکانکی ترقیاں اور صنعتی انقلاب نئے قسم کے کشف و حقائق کو اجاگر کر رہے تھے ، انسان انسان ہونے کی نئی تعبیرات گڑھ رہا تھا تو ایک بہت بڑی آبادی پر اپنی عقلی اور مادی برتری کے دعووں کے ساتھ ان کے ذہن و دماغ کو بھی تسخیر شدہ مان بیٹھا تھا۔ وہیں طبیعاتی ایجادات اور کیمیاوی تجربات ایک ایسےانسان کو بھی جنم دے چکے تھے جو سپید رنگ،تہذیب کے تسلط اور علم کی اجارہ داری کے علاوہ اور طرح کی چیزیں تقریبا سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ مکان کے اعتبار سے وہ بحثیں ہندوستان میں پیدا ہوئیں، ہندو پاک کی سرزمین میں ایک ساتھ پروان چڑھیں اور دنیا بھر کے افکار پر اپنے طور سے اثر انداز ہوتیں رہیں جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔(۱)
تاریخی طور سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام اور مسلمان بیسویں صدی سے نکل کر اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہیں ، ان کی تگ و دو انتہائی طاقت ور قوت کی شکل میں انیسو یں صدی میں دنیا کے سامنے آتی ہے اور مزاحمت کی تاریخ میں ایک ایسی تشریح چھوڑ جاتی ہے جس کا تصور کر کے آج بھی سیاست داں اور قومی پایسی ساز حیرت میں ہیں۔ انیسویں صدی میں ہندوستان میں مسلم مفکرین، معلمین اور علماء کی مزاحمتی کوششیں جسے فتح و شکست کے خانے میں رکھا ہی نہیں جا سکتا ایک بہت بڑٰ ی طاقت (برطانیہ) کو صرف اپنی ایمانی قوت کی بنیاد پر ہلا کر رکھ دیتی ہیں، حتی کہ جدید ہندوستان کی تاریخ منضبط کرنے والوں کو بھی یہ ماننا پڑا کہ انھی جیالوں کی تحریک دراصل قومیت کے شعور کو بھی غذا بہم پہنچاتی رہی ہے۔ ان کی جد و جہد کوہندومسلم کے درمیان یکساں طور سے محسوس کی گئی قومی نہیں، مقامی ہم آہنگیت کہا گیا۔(۲)
بیسویں صدی سے ایک ہنگامہ برپا ہے، اسلام کا سیاسی شعور اس تھیٹر کےمرہون منت ہوچکا ہے جس کی عین شرعی اور اسلامی حیثیت پر ہی گرچہ سینکڑوں اجتہاد تو ہوئے ہیں مگر بد قسمتی سے کوئی اجماع نہ ہوسکا۔ یہ سیاسی شعور بلاشبہ مولانا مودودی (متوفی ۱۹۷۹) کی عبقریت نے نہ صرف یہ کہ پیدا کیا بلکہ عرب(زرخیز ہلال) اور ایرانی دنیا میں اسلامی تشخص کی تلاش کو ایک مہمیز بھی عطا کیا۔ چنانچہ سید قطب(متوفی ۱۹۶۶)مولانا مودودی سے اثر لیتے رہے تو ایران کے اندر بھی اسلامی سوچ کی گوناگوں کیفیتوں نے مولانا مودودی کی دین کی تشریحات سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ علمی دنیا میں مریم جمیلہ(م۲۰۱۲) نے اگر نسائی فکر کی پرورش مولانا مودودی کے زیر اثرعین اسلام کے اصولوں پر کرنے کا حظ اٹھایا تو اسلام سے متعلق انتہائی پیچیدہ مغربی بحثوں کوو اضح کر فکر اسلامی کی نسائی دنیا میں بنا رکھی، مولانا اسرار احمد (متوفی ۲۰۱۰)مولانا مودودی کے خواب سے معنی کشید کر تے کرتے بد خوابی کا شکار بھی ہوئے اور انھیں چھوڑ کر اپنے تئیں سے الگ طور کا اسلامی مشن شروع کیا۔
معاصر دنیا کا جائزہ لیجیے، اسلام کا سیاسی شعور دنیا کے لیے ایک برا خواب ہے تو اسے حقیقت پذیر کرنے کی کوششیں انتہائی ہیبت ناک دکھائی اور بتائی جاتی ہیں۔داعش،نائن الیون ،حزب التحریر، عالمی جہاد کا بگل، اسامہ بن لادن، انور اولاکی، چیچنیا ، افغانستان، عراق یہ سارے نام اپنےخاص سیاق کے ساتھ اسلام کے سیاسی شعور کی بیداری کے نام پر وجود پذیر ہوئے۔ عالمی نظام کا مفاد ایک جانب، امریکہ کا مادی مفاد دوسری جانب اور بیچ میں پستی ہوئی امت مسلمہ جس کے پاس نہ کوئی سیاسی حل ہے اور نہ کوئی سیاسی قائد۔ عرب ممالک یا مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ پر تھوپا ہوا جمہوریت سازی کا امریکی پروجیکٹ،شام، یمن، فلسطین کی ناقابل فراموش حالت، اس پر یہ کہ مسلم اقلیت ملک برما میں صدیوں سے آباد کاشتکار اور کھیتی باڑی کرنے والے مسلمانو ں کا قتل عام باطل طاقتوں کا مسلمانوں کو نیست ونابود کر ان کی املاک اور عزتوں کو خاکستر کرنے کی نئی تعلیم تو دے رہا ہے ۔ترکی کو اگر لیڈر مانیں تودینی تفہیم و معیار کے بے تحاشہ مسائل اگر ایک طرف کھڑے ہوتے ہیں تو دوسری جانب اس کی کردی عوام کے ساتھ جو کہ چار ملکوں(ترکی، عراق، شام اور ایران)میں پھیلے ہوئے ہیں، سلوک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سعودی عرب اگر دین کے نکتہ سے بالکل کسوٹی پر اترتا ہے تو ملک کا سیاسی ڈھانچہ جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے نظریاتی مدعیین کے نزدیک عین اسلامی ہے ہی نہیں، وہیں حقوق انسانی اور امن پسندی کے نعرے لگانے والے یمن میں اس کے ظلم کی داستان سناتے ہیں۔ایران کا قومی وجود امت مسلمہ کی قیادت کے دعووں کے سہارے اگر نئے قسم کے برگ و بار کا ضامن ہے تو اپنے اوپر عائد کردہ تمام تر بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اپنی توسیعی عزائم کی بنیاد پرعرب دنیا کو ناکوں چنے چبوا چکا ہے ۔اس کا انقلاب اسلامی ، اسلامی دنیا کےلیے ایک تیارشدہ حل تو ہے مگر اسلامی تاریخ کی علی العموم تشکیل جدید یوں چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کے ایمان کا سب سے بڑا سرمایہ نبی اکرمﷺ کے پیارے صحابہ کی درگت ہی بن جائے، خلافت راشدہ، اموی خلافت اور سلطنت عثمانیہ کے تخت پر صرف ظلم اور ظلم ہی لکھ دیا جائے۔مسلم تاریخ کے اولین درخشاں پہلو کے نام پر صرف خلافت عباسیہ کا نام رہ جائے، مزید یہ کہ اسلامی تاریخ کا جدلیاتی نظام بے بضاعتی اور عدم اعتماد کے رہین ہو رہے۔
کووڈ ۔۱۹ کے عروج کے وقتوں میں ایران بین الاقوامی طاقتوں کی بدلتی تصویر کا ایک حصہ دار بھی ہے۔ پاکستان اپنے اقتصادی معاملات چین کی توسیعی بصارت کے سپرد کر چکا ہے تو یک قطبی امریکی اشراف کے تحت مہاتحالف کے تابوت پر گویا چین آخری کیل ٹھونکنا چاہتا ہے۔ مگر خود چین کا اویغورمسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا اسلامی سیاست کو جلا بخشنے کے لیے نئے سیاسی شعور کا مطالعہ بھی چاہتا ہے۔
اسلام کے سائے تلے سیاست کے جتنے رنگ نکھر کر آئے ہیں ان پر یقینا انقلابیت کاوہ رنگ جس کا منبع اور مرجع وجودی فلسفے ہیں بہت گہرا ہے ۔چونکہ وجودیت فکر و تدبر اور معاشرے کی اخلاقیات اور کوائف و بقا کی تشریح کے لیے ایک فطری معاملہ ہے لہذا اسے یکسر خارج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا مودودی اور ایران کا اسلامی انقلاب دونوں ہی اپنی ماہیت میں اسی فلسفے سے مستعار بھی ہیں اور اسلامی دنیا میں بالکل جدید سیاست کی داغ بیل بھی رکھتےہیں۔دوسری جانب مخبراتی ایجنسیوں کاتجربہ ہر طرح کی بغاوت، فتنہ اور بلواکو سلفیت کا نام دیتا رہا ہے تو وہیں خلافت کے عملی نفاذ کو داعش کی مثال سے ایک تخریبی عمل بھی باور کرایا ہے۔ جبکہ داعش کا تعلق صدام کے باقی ماندہ عرب (سوشلسٹ)آفیسرز سے زیادہ ہے بہ نسبت کسی نصی قدریت کے متبعین کے۔وہیں مزے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے پہاڑ جیسے ارادوں اور مزاحمت کی دیواروں کو نہ توڑ پانے کے بعد اب امریکہ کی یہ حالت ہے گویا دو دہائیوں سے وہ آسمان کی طر ف منہ کرکے تھوکتا رہا ہے۔بہرحال، اس بات کو مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ سیاسی شعور کی بنیاد پر ایک منظم تیاری اگر کہیں ملتی ہے تو وہ اسی انقلابی مزاج اور طینت میں ہے جس کا غلغہ پچھلی ایک صدی سے اسلامی دنیا میں برپا ہے ، یہ مزاج نئے نئے مفکرین کی پرورش میں خاصہ کردار بھی ادا کر رتا رہا ہے۔ مگر ایک اعتدال پسند دینی سیاسی شعور کو پنپنے کے لیے نہ تو کوئی راہ ہے اور نہ کوئی انٹلکچوئل فورم۔
سیاسی شعور کی پرداخت میں یقینا نظریوں کی خاصی قیمت ہوتی ہے، ہندوپاک میں مولانا مودودی کی پیش کی ہوئی خلافت کی تعبیر اسلامی تاریخ کی انقلابی بازیافت پرمکمل طور سے اپنی توجہ صرف کرتی رہی مگر اس نے استعماریت کے عروج اور قوت کو سمجھنے کے لیے عوام میں مقبول کوئی لائحہ عمل پیش کیا ہی نہیں۔اسلامی سیاست کے ضمن میں ملوکیت کی بھی اصطلاح ابھری اور ڈھیروں ورق سیاہ بھی کیے گئے تاکہ ملوکیت کے نظام کو خلافت سے خارج کرتے ہوئے ایک قسم کا ایسے تنقیدی مزاج کا نمو ہو جسے جمہوریت کے مقابل جمہوریت کی ہی مثبت تشریح میں کھڑا کیا جاسکے ، جمہوریت والے خاصوں سے بھی جڑا ہو اور منتخب اسلامی اصول سے بھی خود کو جوڑے رکھے۔ نقد کے نام پر خلافت اور ملوکیت کو مسلم ذہن کے تفکیری پروسس میں داخل کرنے کے بعد مولانا مودودی کا علمی دنیا کو دیا گیاتحفہ ایسا تنقیدی نظریہ تھا جس کو وہ اسلام کی اولین سیاسی تاریخ سے ڈھونڈ لائے تھے۔
مولانا مودودی کا تفکیری پروجیکٹ اور اسلام کا تاریخی پروسس:
خلافت و ملوکیت کے تعلق سےمولانا مودودی کا پہلا تجزیہ تھا کہ خلافت کی ملوکیت کی جانب منتقلی کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سیاسی مناصب کی تقسیم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عملیت سے اعراض کرنے لگے۔انھوں نےfavouritismاور chauvinismکی حد کردی، اقرباء پروری سے کام لینے لگے(مثال کے طور سے، پانچ لاکھ دینار مروان بن حکم کو بخش دیا)(۳) اور بہت سارے لوگوں کو معزول بھی کیا۔ جن لوگوں پر حضرت عثمان نے عنایتیں فرمائیں وہ طلقاء میں سے تھے، انھیں آخری دنوں میں نبی اکرمﷺ نے معاف کیا تھا۔اور جن لوگوں کو بھی حضرت عثمان نے مراتب دیے ان سب کے اخلاق،کردار اور دیانت داری میں کو ئی نہ کوئی لوچ ضرور تھا۔دوسرے یہ کہ حضرت معاویہ کا سیاسی عروج خلافت اسلامیہ کے آئینی تصور کا خاتمہ ٹھہرا۔ حضرت معاویہ کی سیاسی کھیل نے خلافت کی کمر کی ہڈی توڑ دی، اب جو کچھ باقی رہ گیا وہ autocracy خودمختارانہ حکومت یا ملوکیت کی وہ والی شکل تھی جس میں کرسی کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔یعنی سنہ۶۰ ہجری تک امیر معاویہ سیاست اسلامی کی مطلوب شکل کا قیمہ بنا چکے تھے۔بہرحال، مولانا نے اپنی کتاب میں جس طرح سے صحابہ اكرام جن میں حضرت عثمان، حضرت عمرو بن عاص، مغیرہ بن شعبہ، حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت معاویہ اہم ہیں ان کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس نقد کی وہ روایت جس کی بنیاد مولانا رکھنا چاہتے تھےوہ تو رکھ دی گئی مگر نبی پاکﷺ کے فرمان اورصحابہ اکرام کی عظمت کو ایک ایسے باب میں رکھ دیا گیا جسے تاریخیت کہتے ہیں۔(۴)
تاریخیت اگر ایک طرف فکری انقلاب کی دعوت دیتی ہے تو دوسری جانب تمام قسم کے عقائد، فضیلتوں کو بالائے طاق رکھ کر تاریخ اور تاریخی افراد کی بعد زمانی کے باوجود رائج اصولوں کے ساتھ جانچ پڑتال کرتی ہے۔اس کے مطابق، اقدار، عقیدتیں اور عقائد ایک خاص سیاق اور تاریخ کا حصہ ہیں۔اس سیاق سے پرے ان تمام چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ یعنی کسی علامت کو جاننے اور اس پر گفت و شنید کرنے کے لیے ہمیں اس علامت کی تاریخ اور سیاق جاننا ضروری ہے۔ یہاں تک کے معاملے سے کسی بھی ذی فہم کوانکار نہیں،مگر تاریخی نقطہ نظر کا یہ نظریہ کیااسلامی تاریخ کے لیے بھی ثابت ہوسکتا ہے؟تو جواب ہے ہاں، تاریخیت اسی انداز میں ہمیشہ سے متحرک رہی ہے، مگر ہمارے دور میں اس کا ایک میگاسیاق یورپ کی اتھل پتھل والی تاریخ ہے۔اگر یہی سیاق عہد اسلامی کا ہوتا تو وہاں تاریخیت منفرد طور سے توسیعی انداز میں متحرک ہو۔
مغربی نظریہ جدیدیت کی تشریح و تفسیر اسلامی اصول و احکام کے مطابق کرنے کے لیے مسلم مجددین نے کافی محنت صرف کی ہے۔ان مجددین میں اگر جمال الدین افغانی نے عالمی اخوت کو دنیا کے ایک کنارے سے آوازدی تو ہندوستان سےسیداحمدخان نےاس جدیدیت کے نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئےتجدید کی کوشش بھی کی ہے۔دونوں شخصیتیں اپنےنظریات کی وجہ سے مطعون ہوئی ہیں، حتی کہ گمراہی کے زمرے میں بھی ڈالی گئیں تواپنی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے تعمیر پسندوں کے حلقے میں کافی پذیرائی بھی حاصل کی ہے۔بہرکیف، مجددين کی ایک لمبی فہرست ہے جو’تجدید اسلامی کے تصوات کو جدیدیت کی تفکیری‘آلات سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اسلام کی تہذیبی، تاریخی ، قانونی، اقتصادی اور سیاسی اخبار ومعلومات پر اپنے اس منہج کو پیش کیا، بعد میں ان کا منہج اجتہاد سے بھی موسوم کیا جانے لگا۔وہ علماء جوجدیدیت کی طرف مائل تھے،اس کی تشریحات کو ثابت کرنے کے لیے بعض اسلامی احکامات کو جدید علم کے طبیعاتی شواہد کو ملحوظ رکھتے ہوئے قربان کیا انھیں اب بحث و تمحیص کی دنیا میںapologetic علماء کہا جاتا ہے، ان میں بڑا نام سید رشید رضا مصری کا ہے۔ جس دور میں مولانا مودودی کی تجدیدی علمیت کا لوہا بڑے بڑے مصنفین اختلاف کے باوجود مان رہے تھے، اس دور میں یا اس دور کے عالمی تاریخ کے منظر نامے میں عالی دماغ دو طرح کی فکر مندیوں کی پرورش کرتے نظر آتے ہیں۔ اول وہ دماغ جو خودجدیدیت کی ایجاد تھے ۔ جدیدیت یعنی نشاة ثانیہ کا وہ عمل جو سترہویں اور اٹھاروہیں صدی میں مغربی ممالک میں پیدا ہوا اور دنیا بھر کی تہذیبی اور معاشرتی رجحانات کو ایک نیا معیار دیا جس کی بنا عقلیت یا عقل پسندی پر رکھی گئی۔اس کی منہجی اور جدلیاتی کاروائیوں پر نظر ڈالنے کے لیے یہاں یہ اشارہ کیا جانا چاہیے کہ سائنٹفک میتھڈ اگر اس کامنہج ہےتواس کےجدلیاتی نظام میں خداکا تصور انسانی نفسیات کو مطمئن کرنے بھر تھا،بس۔دوسرے وہ دماغ جو اسلام کی معرفتی کاروائیوں سےواقف تھے، امت مسلمہ پر جو بیت رہی تھی اس کے کوائف سےباخبر تھےاور اس بات کو بخیر وخوبی جانتے تھے کہ مادی دنیاکی تفہیم اور فکری توازن کے اعتبار سے وہ کنگال ہوگئے ہیں، انھوں نے تجدیدیت(اسلام کا تصور تجدید)اور جدیدیت(مغربی)کے درمیان ایک پل بنانےکا ٹھان لیا اور جدید علم کےاٹھائےگئے سوالات کا اسلامی نقطہ نظر سےجواب دینےکی کوشش بھی کی، ان(۵) میں جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، رشید رضا مصری، عبد الرحمان کواکبی بڑےعلماءمیں سےتھےتو ہندو پاک میں اس طرح سوچنےوالوں کی تعداد کم نہ تھی، انڈونیشیا، چین، جرمنی، مصر، شام،فلسطین میں افغانی جنریشن(عبدہ اور رشید رضامصری کے نیٹ ورک)نہ صرف یہ کہ’جدید طورسےتجدید‘کے کام میں محو تھا تو قرآن، سنت اور عرب کی اسلامی میراث کی تفہیم و توضیح میں بھی پیچھے نہیں تھا۔اور سب سےاہم بات جو تھی وہ یہ کہ وہ اسلامی علوم، اسلامی نظریہ علم اور اس علم سے بخوبی واقف تھے جو مغرب کی جانب سے آرہا تھا،مغربی علوم کی بنیادی سیاست سے واقف تھے اور ان علوم کی استعماری کفالت کے سامنے اپنے حکام کو گھٹنے ٹیکتے ہوئے دیکھ رہے تھے، لہذا ان کا ردعمل پر مبنی الحاق عالمی اور علاقائی سیاست سے اگر ایک طرف تھا تو دوسری جانب مقامی اثر بھی الگ طور کا تھا۔
اوپر ذکر کیا گیا یہ دورنوع انسانی کا سب سے تیز رفتار دور ہے، یعنی جتنی سرعت سےمسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہے اتنی تیزی سے کبھی بھی نہیں بکھرا اور جتنی تیز رفتاری سے مغربی قوم نے تاریخ کو پلٹ دیا ہے اوردنیائے انسانیت کو جینے، چلنے، پھرنے، سوچنے اور عمل پیرا ہونے کے لیے بالکل الگ نظام دیا ہے ویسے اسلامی دنیا میں رہنے والے ذہن کے لیے سوچنا کبھی بھی ممکن نہ تھا۔ مگر اس طور کی تیز رفتار ترقی کے پیچھے عیسائیت، حکومت اور عوام کے درمیان جدال اور ظلم کی الگ سے حکایتیں رہی ہیں۔ بلاشبہ مولانا مودودی اپنے عہد کے اضطراب کے پروردہ تھے، ان کا دور ان جیسے سینکڑوں مجددین کا دور بھی تھا جن کا آج نام لیوا بھی کوئی نہیں، ان کے عہد کا ایک پیرایہ لکھا جارہا تھا تو دوسرا مٹایا بھی جا چکا تھا۔ انھوں نے تاریخ دیکھنے کے جدید نظریوں کو خاطر میں لانے کی کوشش کی اور اسلام کے تجدید ی مسائل کو تاریخیت کے جدید عناوین کے ساتھ دیکھا۔ان کے سامنے نو آبادیاتی نظام کی مثالیں تھیں جس نے ریاست کی نئی شکل دنیا کو دی، ریاست سازی کے ایسے اصول بنائے جو کہ مسلم مفکرین کے لیےنئے تھے۔ مولانا مودودی کو ایسا سیاسی شعور چاہیے تھا جو عہد جدید کے سیاسی حل؛ جمہوریت والا بھی ہو اور عہد اسلامی کے خصائص بھی رکھتا ہو، دے۔عالم اسلام میں برپابے چینیاں تھیں تو اسلامی دینیات، فقہ، تاریخ، فلسفے ،قانون کا رکا ہوا سلسلہ تھا۔ مولانا کو ایک دنیا، تہذیب، ثقافت اور اسلام کو دیکھنے کا ایسا ٹول چاہیے تھا جو اسلام کی کایا بہت جلدی پلٹ دے۔ اپنی تجدیدی نکتوں کے ساتھ انھوں نے ایک ناقدانہ علمیت اور شبہاتی تفقہ کی بنیاد رکھی جس کا مرکزی موضوع سیاست تھا ؛ اسے اسلامی تصورتعمیر کی شہ رگ سجھتے تھے۔انھیں apologetic کہنے کے بجائے اسلامیت کا ماسٹر آئیڈیولاگ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے تفکیری پروجیکٹ کواسلام کی ابھی تک چلی آرہی تاریخی پروسس سے سمجھنےکےبجائےان مذکورہ دونکات کے سہارے اوران کے تئیں فکر مندیوں کے پیش نظر کرنےکے لیے اسلام کی اولین دور میں صحابہ کرام کے ان معاملوں کی تاریخ پر نظر ثانی ڈالنے کی کوشش کی جن میں سیاست کا پہلو زیادہ اہم تھا۔ انھیں بھی یونیورسٹیز اور کالجز میں اسلامی سیاست کے تعلق سے پڑھائی جانے والی فکرمندیاں دامن گیر تھیں۔(۶)
مولانا مودودی کے تفکیری پروجیکٹ کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اسلام کے تاریخی پروسس اور مولانا مودودی والی تاریخیت کی تفہیم کے درمیان فرق کو سمجھ لیں۔ اسلامی تاریخیت کے مطابق سائنسی اور معاشرت کا نقطہ نظر زمان اور وقت کی قید سے آزاد ہے، اس میں زمنی تبدیلیاں ملاحظات کو قلم بند کرنے اور تجریبی امکانات کے لیے ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہیں۔(۷) اسی لیے ہمارے مورخین جب تاریخ کی کتابیں لکھتے ہیں تو ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے اور انتہا جاری زمانے تک ہوتی ہے، اور دنیا کی طبیعاتی نہیں بلکہ مابعد الطبیعاتی تشریحات کو اجاگر کرتے ہیں، مثال کے طور سے خدا کا وجود،خدا کا ارادہ، دنیا کی تخلیق، انسان سے پہلے کی دنیا اور انسان کو پیدا کرنے کے پیچھے خدائے تعالے کی حکمت وغیرہ۔ یہ اسلامی تاریخ کا پروسس ہے۔ اس کے بالكل برعکس جدید تاریخیں دنیا کی طبیعاتی وجود، اس کی عمر سے ہوتے ہوئے، انسانی شروعات کو بقا کی جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے بایولوجییکل تبدیلیوں پر آکر رکتی ہے۔ یہ تاریخیت کی بالکل جدید تعبیر ہے، جسے لوگوں سے منوانے کے لیے سینکڑوں شواہد ہیں، علمی اور سائنسی دنیا میں اتفاق و اختلاف کے اصول ہیں ، انھیں چیلنج کرنے کے لیے انھی جیسے شواہد درکار ہوتے ہیں۔تاریخیت کی تعریفاتی تفہیم بھی کچھ اسی طرح کی ہے کہ وہ تاریخ جو مقبول تاریخ کی تردید تاریخ کے اصولوں پر کر دے اور نئے اصول منضبط کرے۔بہرحال، ہمارے جدید دور کے اندرونی شعور میں ملوکیت، پاپائیت، آرتھوڈکسی، تقلید، فکری جمود کے لیے ایک طور کی نفرت ہے جو یورپ کی تجرباتی تاریخ کا حصہ ہے۔ یورپ میں ملوکیت کو عوام مخالف اور حریت تعبیر کے خلاف ایک استبدادی نظام سمجھا جاتا ہے مگر اسلامی تاریخ میں سیاسی حکم کی ایک نہیں بلکہ بہت زیادہ قسمیں ہیں۔ علماء نے خلافت کو عین اسلامی نظام نافذ کرنے لیے اہم مانا ہے(۸)تو اس کی عدم موجودگی میں سلطنت، امارت کو دار الاسلام اور دار الحرب کے درمیان تفریق کے لیے بھی اہمیت دی ہے۔ بعض علماء نے دار المختلط کے تصورکو بھی پیش کیا ہے۔ جہاں تک ملوکیت کا معاملہ ہے تو اس سے نفرت جدید منطق کی دین ہے۔اس بات کی طرف بھی توجہ کی جانی چاہیے کہ شہنشاہیت سے نوع انسانی سب سے اچھی طرح سے واقف ہے، وہ اسی لیے کہ حکومت کرنے کا سب سے پہلاآفاقی اصول شہنشاہیت کے تلے بنایا گیا۔ یورپ کا مشہور عالم میکیاولی اپنے اطالوی باشاہت کی حجیت قائم کرنے کے لیے اسےاخلاقی پاندیوں سے بھی آزاد کرتا ہے، وہ کہتاہے’’ کامیاب بادشاہ کو اچھا اور نیک ہونا ضروری نہیں‘‘۔(۹)
جمہوریت کی رگ شورائیت میں پنپتی ہے، دنیا کے کسی بھی کامیاب سیاسی نظام میں شورائیت کا پہلو بہت اہم ہے۔ شورائیت کا مطلب ہےاہم تدابیر اختیار کرنے کے لیے سیاسی حلقوں کا آپس میں مشورہ کرنا۔اس نکتے سےدیکھیں تو خواہ خلافت ہو، امارت ہو یا سلطنت ہو شورائیت اس میں مشورہ کرنے کا ایک خود کا ر نظام ہے جس کے مطابق اسلام کے سیاسی مسائل کسی اجنبی نظام میں بھی برسر پیکار رہ سکتے ہیں اور سیاسی پرفارمنس میں نمایاں خدمات انجام دے سکتے ہیں۔بہرحال ، شورائیت کا اسلامی نکتہ’وامرھم شوری بینھم‘ہےجوسول سوسائٹی، سیاسی ایڈوائزری، کاونسل شپ، وزارت ، لیبر یونین، دینی اداروں کی تشکیل، غرض یہ کہ سیاست سے لے کر دین تک کے معاملوں سے نپٹنے کے لیے اداریاتی رنگ دینے کا نام شورائیت ہے۔ یہ ایک اصول ہے جو سیاسی معاملات کو مزید منظم کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔مولانا مودودی جب تصور خلافت سے اثر کا اظہاراور اس کے قیام کی کوششوں کے بارے میں اپنے رجحانات کا ذکر کرتے ہیں تو اس وقت وہ دراصل امت کے سیاسی حل پر مبنی اپنی تجدیدی آراء کی بنیاد پر اسلامی سیاست کو زندہ کرنا چاہتے ہیں اور جب وہ ملوکیت کو دنیا کا سب سے بدصورت نظام مانتے ہیں تو اس وقت وہ اسلام کےdynastic اصول و روایت سے بیزاری ، رنگ و نسل کی بیخ کنی اور ذرائع پر تسلط کے بارے میں ہدایات کی نہیں بلکہ اس جدید تجربہ کو اپنی بحث، دلیلوں اور تنقید کی خاطر سیاق لے رہے ہوتے ہیں جو یوروپی تاریخ اور مذہب، عوام اور حکومت کے درمیان تصادم کا حصہ ہے۔ یہ بھی دیکھیےکہ مشرق کے اہم خطوں میں شہنشاہیت اور بادشاہت کا ایک معقول نظام حکومت تھا، جبکہ یوروپ میں شہنشاہیت ظلم کے معاملے میں مذہب کے اداریاتی شکل کا برابر کا شریک کار تھا ،لہذا مولانا مودودی کی ملوکیت پر تنقید مشرقی شہنشایت کو مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ یورپ کی تجرباتی تاریخ کے حوالے سے ہے، اس لحاظ سے ملوکیت کے بارے میں ان کی معرفت امپورٹڈ ہے۔ جمہوریت کے خصائص میں سے حریت تعبیر کے تمام عناصر کو وہ خلافت راشدہ کے بہتیرے واقعات میں وہ بڑ ے شفاف طریقے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اسلامی تاریخ پر نظر ثانی کرنے کا نظریہ دراصل جدید ہے ، انھوں نے جدیدیت کے فراہم کیے گئے مناہج سے اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو کھڑا کرنے کی کوشش کی،یہ کوشش نظریاتی طور پر کامیاب بھی اسی لیے محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے مواد عوام الناس کو فراہم کرنے کے لیے اسلام کے نکتہ ارتقا اور طریقہ جدل کی روایت کو چھوڑ کر علم کی جدید ایجنسی(نقد) کی منطق پر اپنے نظریے کا ہیکل کھڑا کرتے ہیں۔
مولانا صلاح الدین یوسف اور ان کا تعمیری پروجیکٹ اور شریعت اسلامیہ کی تفہیم:
جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ تجدیدیت اور جدیدیت کے درمیان گفت وشنید نے علماء کو نت نئے طریقے سے اسلامی احکامات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے برانگیختہ کیا۔ مولانا مودودی کے پاس اپنے وضع کردہ حل کے لیے وافر مقدار میں ڈیٹا(تاریخ)موجود تھا، انھوں نےصحابہ کرام کی زندگی کو ان کے معاشرتی-دینی ریکارڈ اور سیاسی فیصلے کو مد نظر رکھنے کے بجائے ان کی تاریخ کو اپنی فکر کی تعبیر کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے جابجااسلام کے تاریخی ڈیٹا کے تعلق سے صفائیاں بھی دی ہیں اور مستقبل میں اس کے غلط استعمال سے ڈرایا بھی ہے۔ مگر خود کو اس بات کا حق دار بھی مانا ہے کہ وہ خود صحابہ کرام اور اسلام کے سیاسی شعور کو بلیک اینڈ وہائٹ چشمے سے دیکھ سکتے ہیں۔(۱۰)
مولانا صلاح الدین یوسف(متوفی ۲۰۲۰) ایک اسلامی باحث اور محقق کے طور پر عالم اسلام میں مشہور ہیں۔ گو کہ مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کے رد میں ان کے زمانے کے بڑے علماء نے کتابیں لکھیں، وہیں ان کے دفاع میں لکھنے والوں کی ایک فوج بھی ہے۔ مگر ایک محقق اور باحث کے لکھنے میں اور ایک عالم کی مخالفت میں بہت واضح فرق ہوتا ہے۔ عالم عوامی رائے کو متاثر کرنے اور عوام سے متاثر ہوکر بھی لکھتا ہے جب کہ محقق اور باحث کا معاملہ صرف اور صرف علم کی دنیا میں ہو رہے تعقلاتی-جذباتی تبدیلیوں اور متعلقہ مواد پر ٹکا ہوتا ہے۔ مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت خود بھی محمود احمد عباسی کی کتاب’خلافت معاویہ و یزید‘(۱۹۵۹) کے رد میں قسط وار مقالے کی شکل میں لکھی گئی تھی ۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ مولانا مودودی نے اپنے نظریےکی قربان گاہ پر خدا کی طرف سے متعین کردہ تقدسات کو قربان کیا ہے۔ انھوں نےصحابہ کی معاشرتی تاریخ ، ان کے سیاسی تعلقات اور ان کی دینی بصیرت پر جرح و نقد کا دروازہ کھولا ہے، جو کہ عین نبی پاکﷺ سے محبت اور پاسداری کے معاملے میں ایک رخنہ ہے۔ان کے نقد اور جرح کے تحقیقی جائزے کی وجہ سے مولانا صلاح الدین یوسف کی اہمیت مولانا مودودی کے تمام ناقدین اور مویدین سے مختلف ہے ، وہ علم کی دنیا میں تغیرات کےمشاہدین میں سے تھے تو اسلامی نظام کو ان شرطوں کے ساتھ سمجھنے کے قائل تھے جو نبیﷺکے فرمان اور اللہ کے قرآن سے قریب کا تعلق رکھتا ہے۔ ان کی کتاب ’خلافت و ملوکیت، تاریخی و شرعی حیثیت‘(۱۹۷۰) کتابی شکل میں مولانامودودی کے انتقال سے نو سال قبل ہی منظر عام پر آگئی تھی۔ علمی دنیا میں کتاب کو بہت زیادہ پذیرائی نصیب ہوئی ، نقل و تقلید پر منحصر لوگوں نے کتاب کے مواد کو ستائشی نظروں سے دیکھا تو عقل پرست مسلم مفکرین کے یہاں بھی کتاب کی قدر و قیمت بڑے پیمانے پر محسوس کی گئی۔مولانا صلاح الدین یوسف کی کتاب کی علمی نوعیت کو دیکھتے ہوئے مولانا مودودی کی اسلامی سیاست کے بارے میں فکر مندیوں اور ان کی کتاب کے تناظر میں عالمی تبدیلیوں، تاریخی اور جدید نظریوں پر تفصیلی نظر ڈالنے کے بعد، دین اسلامی کی سیاسی حرکات و سکنات کی مدلل تفہیم کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ ہم عہد جدید میں سانس لے رہے ہیں یا ایسے عہد میں جس میں ہمارا کوئی نظام ہے ہی نہیں ، اس میں علوم کی تاویل و تعبیر اور اسلامی تعلیم و ثقافت کو جدیدیت کی آیڈیولاجکل مقاصد(مغرب میں ترقی یافتہ مناہج کے نقطہ نظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مشرق میں پیدا ہوئے علوم پر محاکمہ، تشریح اور تنقید) کے تئیں نرم گوشہ رکھ کر یا اس کی فکری کارکردگی سے مرعوب ہوکر یا اس کی عقلی بحثوں کی بنیادوں سے راضی ہوکر ہمارے جدید مفکرین کی سوچ اور سمجھ کا کاروبار چلتا ہے۔بہرحال،نفس مسئلہ پر آنے سے پہلے کتاب کی اہمیت پرنظریاتی نکتے سے بھی روشنی ڈالنی ضروری ہے۔
جس طرح ہمارا دور جدیدیت کا دور ہے، نئے علوم اور نئی ترقیوں کا دور ہے،اسی طرح تہذیبیت، تکثیریت، مابعد جدیدیت، مابعد-مابعد جدیدیت، مابعد انسانیت، مصنوعی ذہانت، استعماریت، حریت پسندی، انفرادیت ، فیمنزم جیسے ڈھیروں مضامین اپنی عملی ترجیحات اور معاشرے کو بدل کر ایک طور کی تہذیبی مغربیت کو تمام عالم میں متعارف کرا رہے ہیں۔ عالمیت ،عسکریت پسندی اور اقتصادیت (مادیاتی ذرائع اورمالی کنٹرول)نے دنیا کی ریڑھ کی ہڈی پر قبضہ کر لیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی تمام تر جہتوں پر متشدد اور تخریبی تعبیرات حاوی ہیں یا پھر مولانا مودودی اور ایرانی افکار والی اسلامی انقلابی توضیحات ہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں اسلام کے معاشرتی پروسس کو بدلنے والے بالخصوص مغرب سے آنے والے اقدار سے بچنے یا فرار کے لیے اسلام کی سیاسی شعور کی آبیاری ہوئی تو ہے، دسیوں طرح کی قوتوں نے اپنے منظم ہونے کا بھی اعلان کیا ہے مگر جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، چند عرصہ بعد ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے نظام کی پشت پناہی طاقتور ملکوں کی مخبراتی ایجنسیوں نے کی ہے۔ ایسے ماحول میں ایک بالغ اسلامی سیاست کو فروغ دینے کے لیےمولانا صلاح الدین یوسف کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
چونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان الگ قسم کی کشیدگی ہے جس کی نوعیت جدید تاریخی سیاسیت کی ہے، عالمی طاقتوں کا مسلم تشدد پسندی کو بڑھاوا دینے اور اسے ہر ملک میں استعمال کرنے کا پورا نظام ہے، اسلامی تشدد ہر جگہ دکھتا اور بکتا ہے۔ مولانا يوسف کی کتاب عجمی دنیا میں بالخصوص برصغیر ہند میں تشدد اور سیاسی اسلام کی غلط تفہیم اور بے جا استعمال کی اناٹمی پر ایک سخت پکڑ ہے۔ ایسی صورت میں معتدل اسلام کی سیاست کی ضرورت کوئی بھی محسوس کر سکتا ہے۔معتدل اسلام وہی ہے جو سنت مباركہ کی تشریح سنت کی روشنی میں اور کلام پروردگار کی تشریح احادیث مبارکہ اور سنت کی روشنی میں کرے۔ اعتدال کا ایک پورا نظام اور تصور جو کہ معاشرے سے گہرے طریقے سے جڑنے ہی پر حقیقت کی شکل اختیار کر سکتا ہے، اس ناحیے سے ، مولانا یوسف کی علمی فکر مندی مبادی اسلام کی تعمیری اور اصلاحی کوششوں سے جوڑتا ہے تو عالم اسلام کا تعلق غیر اسلامی دنیا سے جوڑنے کے لیے انتہائی لطیف انداز میں اسلامی سیاست کے اصولی اور آفاقی حقائق بھی پیش کرتا ہے۔ ان کی علمی بصیرت معاشرے کو بڑے بڑے فکری عذاب سے نجات بھی دلا سکتا ہے۔
مولانا صلاح الدین یوسف کی ’خلافت و ملوکیت، تاریخی وشرعی حیثیت‘ کے مطالعے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نظر مغربی سیاسی نظریوں کے ارتقا تک ہی محددد نہیں، بلکہ وہ مشرقی سیاست کے ارتقا اور اسلامی سیاست کی معنویت کی علامتی اور تقابلی رموز سے بھی خوب واقف تھے۔وہ مولانا مودودی کی تاریخی بصارت اور صحابہ کے تعلق سے تنقیدی لہجہ اور ان کے آبجیکٹیومطالعہ تاریخ اسلام کے لیے استعمال کیا گیا منہج اور انقلابی ذہنیت کی کاروائیوں کو بغور دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ انھوں نے مولانا مودودی کا نکتہ کہ”خلافت راشدہ کے بعد ہمارے یہاں بادشاہی کا جو نظام چلتا رہا ہے اس کے اور خلافت راشدہ کے درمیان اصول، مقاصد، طریقہ کار اور روح و مزاج کا فرق رہا ہے“۔ ان کے (ہمارے)نزدیک یہ دعویٰ اور عروج و زوال کے اس ابدی اور فطری قانون سے اغماض برت لینے کا نتیجہ ہے ۔ مولانا يوسف خلافت کی تبدیلی، اصول، طریقہ کار اور اصول و مقاصد کے تعلق سے مولانا مودودی کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”اسلامی حکومت کے اصول و مقاصد کیا ہیں؟ بیرونی طور پر خلاف اسلام طاقتوں کا مقابلہ اور ان سے جہاد اور اندرون ملک کی مذہبی و تمدنی زندگی کے تمام شعبوں میں احکام شریعت کا نفاذ، کیا یہ اسلامی حکومت کا نفاذ نہیں؟“ اس کے علاوہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ جیسا اوپر ذکر کیا گیا کہ مولانا مودودی اسلامی سیاست کی تاریخ کے تعلق سے بےحد محتاط انداز میں صفائیاں بھی دیتے ہیں اور ڈراتے بھی ہیں، مولانا صلاح الدین یوسف ہماری توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ دھیان رہے”مولانا کی عبارت غور سے پڑھیے اس میں مولانا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ سب مقاصد اس نظام بادشاہی میں بھی اسی طرح قائم رہے جس طرح خلافت راشدہ میں تھے“۔ یہاں مولانا یوسف کی سیاسی بصیرت اور اس کی تشریح پر ایک نظر ڈالیے، مولانا یوسف کہتے ہیں”فرق دونوں نظاموں(خلافت و ملوکیت)کے اصول و مقاصد میں نہیں بلکہ ان کے ماتحت حکمرانوں کے مقاصد میں ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ فرق”حکمرانی“کے اصول و مقاصد میں نہیں بلکہ”حکمرانوں“کے مقاصد میں ہے ، خلافت راشدہ میں اسلامی نظام حکومت کے مقاصد تو یہی طاغوتی طاقتوں کا استیصال اور تنفیذ شریعت تھا لیکن اس کے علاوہ خود ان حکمرانوں کے کوئی مقاصد اس قسم کے نہ تھے کہ جن سے یہ معلوم ہو کہ انھوں نے اپنے اقتدار کی حفاظت یا طول دینے کے لیے اپنے ہی کسی عزیز کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے ادنی کوشش بھی کی ہو۔حضرت عثمان رضی الله عنہ کا یہ کردار دیکھیے کہ شر پسند عناصر کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرلیتے ہیں لیکن حفاظت اقتدار کے لیے نہ تو خود ہتھیار اٹھاتے ہیں اور نہ اس کی اجازت اپنے وفادار اور حامی گروہ کو دیتے ہیں“۔ مولانا کی اس توضيح سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلامی سیاست میں اقتدار نہیں بلکہ شریعت کے اصول و مقاصد کو ہر حال میں باقی رکھنا ہی اہم ہوتا ہے۔ حضرت عثمان رضی الله عنہ نے سیاسی اسلام کے اس نکتے کو خوب تر طریقے سے نبھایا جس میں اقتدار کے بجائے نبیﷺ سے وفاداری اور اسلام کی سیاسی روایت اس کے اخلاقی لوازمات کے ساتھ باقی رکھنا ہی اسلامی سیاست کی کنجی ہے۔ بعد کی اسلامی سیاست میں اس دور کے مسلم معاشروں میں تنزلی کی طرح مسلم حکمران بھی دنیاداری کی طرف مائل ہوئے اور اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں بھی کیں، یہ کوتاہی بشری ہے، مولانا مودودی نے انھی بعد کی کوتاہیوں کی بنیاد کو نفس حکمرانی کا فرق قرار دے دیا ہے۔(۱۱) مذکورہ اقتباس کے تجزیے اس لیے بھی اہم ہیں کہ مولانا مودودی کی پاکستان کے تعلق سے جدید پالیسی اور پھر جماعت اسلامی کا دو دھڑوں میں بٹ جانا ، بعد کے دنوں میں مولانا مودودی کا نئے گروپ کو سمجھاتے رہنا اور نئے گروپ کا اس بات پر بضد رہنا کہ جماعت اسلامی اپنے مقاصد سے منحرف ہوگئی ہے، جواب میں مولانا مودودی کا یہ کہتے رہنا کہ یہ صرف طریقہ کار میں تبدیلی ہے اور طریقہ کار میں تبدیلی انحراف نہیں۔ تو حضرت معاویہ رضی الله تعالی عنہ کا اسلامی طرز حکومت میں تبدلی کیوں کر ایمان اور ضمیر کو بالائے طاق رکھ کر ہی اسلامی سیاست سے انحراف ہونا چاہیے؟ کیوں حضرت معاویہ رضی الله تعالی عنہ کاحکومت کا طریقہ ،طریقہ کارمیں تبدیلی نہیں ماناجاسکتا؟
مولانا مودودی نے دو نظام حکومت میں تبدیلی کوبالکل الگ نہج پر لے جاکر اچھا اور برا بنایا ہے۔ انھوں نے نظریاتی طور سے یہ مان لیا ہے کہ خلافت اچھا نظام ہے اور ملوکیت اسلام کے سیاسی مزاج کو باقی رکھنے کے لیے اچھا نظام نہیں ، خلافت کی تائید کے لیے انھوں نے سات خصوصیات گنائی ہیں جو”وہ نہ قرآن میں ہیں نہ احادیث میں بلکہ خلفاء راشدین کا عمومی طرز عمل تھا اس سے وہ مستفاد ہیں۔اسی طرح سے”ملوکیت“ کی جو خرابیاں مولانا نے گنائی ہیں اس کے متعلق بھی قرآن و حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ اس سے یہی لازمی نتائج نکلیں گےبلکہ یہ خرابیاں ان خلفاء کے طرز عمل سے اخذ کردہ ہیں جو اس نظام بادشاہت کے تحت حکمرانی کرتے رہے ۔اس سے صاف واضح ہے کہ خلافت کے امتیازی خصوصیات یا ملوکیت کی خرابیاں نفس خلافت و ملوکیت کے امتیاز میں داخل نہیں بلکہ یہ اس کا اہم مظہر و نتیجہ ہیں ان خلفاء و ملوک کے طرز عمل کا جو ان دونوں نظام حکومت کے تحت حکمرانی کرتے رہے۔(جیسا کہ مولانا مودودی کا نکتہ ؛ملوکیت کی اہم خرابی یہ تھی کہ اس میں بیت المال کا استعمال بے جا سے بڑھ کر ذاتی نوعیت کا ہو جاتا ہے)۔ مولاناصلاح الدین يوسف فرماتے ہیں کہ یہی الزام مولانا نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تاریخ کے بیان کو سچ سمجھ کر لگایا ہے۔اور پھر عمر بن عبد العزيز نے ساری صورتحال حتی کہ بیت المال کا معاملہ بھی خلافت راشدہ کی طرح کردیا تو اس میں بقول مودودی ملوکیت کی ماہیت کا کردار ہے جو کہ ان کے نزدیک بری شئی ہے اور پھر وہ بھی تو ولی عہد سے خلیفہ اسی طورسےمقرر ہوئے جو مولانا مودودی کے نزدیک مبنی بر فساد ہے۔لہذا، مولانا مودودی کی یہ فکر مندی کہ اسلامی سیاست ہے کیا اور ہم اپنی نوجوان نسل کو یونیورسٹی اور کالجز میں کیا پڑھائیں گے؟ مذکورہ دو نظام اسلام تاریخ میں جاری تو ہیں مگر ان دونوں کے درمیان خط امتیاز کیسے کھینچی جائے؟اس طرح کے سوالات عام ذہن کے لیے لازمی اور ضروری ہیں جس کی بھرپائی اس جنریشن کو تنقیدی مزاج بناکر اور اسلام کی اولین تاریخ کی آئیڈیولوجیائی تشریح کر کے ہی ممکن ہے۔ مختصرا یہ کہ مولانا مودودی کا اسلامی سیاست کو سمجھنے کا پورا کلیہ اس بات پر مبنی ہے کہ خلافت اسلامی نظریات کے لیے بہترین پناہگاہ ہے وہیں بادشاہت ایک مبنی بر ظلم نظام ہے۔اسلامی سیاست کو سمجھنے کا وہ منہج جس کے موید مولانا مودودی ہیں سیاست کی دنیا میں ایک ہیجان تو ہے ہی جس میں اسلام کو اور اسلامی ریاست کو ریڈی میڈنظریات سے جوڑنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔ وہ خلافت کے بارے میں خدائی اور الہیاتی نکتہ تو مانتے ہیں مگر یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ یہ انسان کی معاشرتی اور سیاسی ضرورتوں، مجبوریوں اور جرات مندی سے بعید کوئی ایسا نظام ہے جس میں داخل ہو کر لوگوں کے ضمیر زندہ ہو جانے چاہئیں اور لوگ اسلام کی سیاسی عملیت کو برقرار رکھنے کے لیے بشری تقاضوں سے مبرا بھی ہو جائیں۔ ان کی اس کوشش کا نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ آج علم سیاسیات کا کوئی طالب علم بھی تصور خلافت کو معقولیت کی دہلیز سے پرے رکھتا ہے اور اسے ایک ایسا یوٹوپیا سمجھتا ہے جس کی اصل تک پہنچنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے مگر پہنچا نہیں جا سکتا۔
اسلامی یوٹوپیا دراصل مولانا مودودی کے تفکیری پروجیکٹ کا نتیجہ ہے
مولانا مودودی کی پوری کتاب کا سب سے خطرناک نتیجہ جس پر مولانا یوسف نے بڑی احیتاط سے گرفت کی ہے وہ اسلامی سیاست کا تیس سالہ فسانہ تھا، مولاناصلاح الدین یوسف نے اسے خوب طریقے سے واضح کرنے کی کوشش کی۔ مولانا يوسف کے مطابق، مولانا مودودی نے پورے کے پورے اسلامی سیاست کو تیس سالہ دور میں سمیٹ کر رکھ دیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اسلامی نظام کی تاریخ بھی کوئی صاف ستھری نہیں۔ اسلامی نظام کی تاریخ ویسے ہی کرپٹ ہے جیسے دوسرے نظام کی ہو سکتی ہے اور اس کرپشن کی بڑی وجہ خلافت کی ملوکیت میں منتقلی ہے جس کے لیے نشان زد صحابہ کرام ذمہ دار ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں”اسی طرح جو لوگ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے سامنے یہ نقشہ آتا ہے ۳۳۔۳۴ ہجری تک خلافت راشد ہ اسلامی حکومت کی بہترین خصوصیات کے ساتھ چل رہی ہے۔ پھر اس پر زوال آنا شروع موتا ہے“، ”یہاں تک مولانا نے صاف اقرار کیا ہے کہ خلافت راشدہ کی خصوصیات پر زوال خود خلافت راشدہ (۳۳ھ کے بعد)کے دور میں آنا شروع ہوا“۔(۱۲) مولانا مودودی کا یہ دعویٰ کہ اسلام کی سیاسی زندگی میں زوال دراصل ملوکیت کی دین ہے وہ یہاں خارج ہوجاتا ہے۔ زوال معاشرے کی اخلاقيات میں مضبوطی اور کمزوری کو سمجھنے کے لیے ایک اشاریہ ہے جو کہ خلافت راشدہ کے آخر آخر میں ہی ظاہر ہو گیاتھا۔ زوال انتقالی نوعیت کا نہیں ہوتا بلکہ یہ ظاہر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بھی معاشرہ اپنے بنیادی اصول سے اعراض کرنے لگتا ہے۔
مولانا مودودی کے بیان پر توجہ فرمائیں:”یہاں تک کہ۶۰ ہجری تک پہنچتے پہنچتے وہ ساری خصوصیات ختم ہوجاتی ہیں اور ان کی جگہ دنیوی حکومت کی امتیازی خصوصیات نمایاں ہوجاتی ہیں۔(۱)جبری حکومت(۲)موروثی بادشاہی(۳)قیصر و کسریٰ کا سا طرز زندگی(۴)راعیوں کا رعایا سے احتجاب (۵)بیت المال کے معاملے میں احساس ذمہ دار ی کا فقدان(۶) سیاست کا شریعت کی پابندی سے آزاد ہوجانا(۷) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مسلمانوں کی محرومی(۸)شوریٰ کی حکومت کا خاتمہ، غرضیکہ وہ تمام چیزیں جو ایک دینی حکومت کو ایک دنیوی حکومت سے ممیز کرتی ہیں، وہ۶۰ ھ کے بعد سے ایک مستقل بیماری کی طرح مسلمانوں کی حکومت کو لگی ہوئی نظر آتی ہیں۔یہاں مولانا صلاح الدین يوسف لکھتے ہیں کہ”اصحاب رسول کی موجودگی میں خود ایک جلیل القدر صحابی رسول کے اپنے دور اقتدار میں اسلامی حکومت کو مستحکم اور اس کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے بجائے سرے سے اسلامی حکومت کی تمام امتیازی خصوصیات کو مٹا کر ، نظام حکومت کا ڈھانچہ خالص دنیوی حکومت کے انداز و خصوصیات کے مطابق مرتب کرلیا، کیونکہ۶۰ ھ تک حضرت معاویہ کا عہد اقتدار ہے اور اس دوران میں ہزاروں اصحاب رسول بھی موجود تھے ۔ان میں حضرت حسين بھی تھے جن کی باطل کے مقابلے میں، حق گوئی و جاں فروشی کی داستانیں مولانا مودودی بھی بعینہ صحیح سمجھتے ہیں، لیکن تعجب ہے کسی نے ان تبدیلیوں پر کلمہ احتجاج بلند نہ کیا لیکن خامشی و خوشی کے ساتھ اسلامی حکومت کی تمام امتیازی خصوصیات کو گوارا کر لیا اور چند آوازیں اٹھیں بھی تو اس وقت جب حضرت معاویہ کے اقتدار کا دم واپسیں تھااور وہ بھی صرف ایک مسئلہ یزید کی ولی عہدی کے سلسلہ میں اور اس کے علاوہ مکمل سکوت اور سناٹا ہے، نہ کہیں اضطراب و شورش ہے اور نہ کہیں نفرت و احتجاج کی صدا۔(۱۳)“اب مولانا مودودی کا یہ منطقی معاملہ درست ہے کہ صحابہ کرام کی اتنی بڑ ی تعداد مصلحت پسند ہے یا یہ کہ وہ اولین اسلام کی تاریخ کو اپنے نظریہ کی تائید میں پڑھنا چاہ رہے ہیں ؟
اوپر ذکر کیا گیا کہ ملوکیت اور بادشاہت عوام الناس کو سنبھالنے کا ایک مقبول نظام تھا، اس نکتے کو مولانا یوسف نے بھی ذکر کیا ہے، ویسے ہی جیسے آج جمہوریت قومی ریاست پر مبنی نظام کے لیے مقبول ہے۔ بہرحال، اسلام کا تیس سالہ سیاسی نظام یا خلافت راشدہ یہی متاخرین کے لیے اسوہ ہو سکتا ہے، اسلامی دنیا میں سیاست سے متعلق تمام تحریکیں، تعبیرات اور اعمال دراصل باطل پر راضی ہوجانا ہے۔یہ ہے مولانا موددی کا اسلامی سیاست کے تعلق سے بنایا ہوا منطقی فِلٹر، اس طرح کا منطقی فلٹر اگر ایک طرف بہت بڑی آبادی کو باطل کا موید کار بنا سکتا ہے تو عوام الناس کی زندگیوں اور خواص کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر پینی نظر رکھ کر نئی نسلوں میں تشدد کے عفریت بھی پیدا کر سکتا ہے۔
چونکہ اس مقالے کا مقصد نتیجے یا تجزیے پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ اس سوال کے پیدا ہونے کے امکانات پر غور کرنا ہے جس کے مطابق اگر ایک طرف خلافت کی علمی، تصوراتی، روایتی، نظام موافق ، تاریخیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی ضروری ہے تو وہیں اس بات پر بھی زور ہے کہ ہمیں خلافت کو ایک معقول (rational and practical) نظام کے طور پر سوچنا چاہیے جس کی شکل آج کے زمانے کے حساب سے بدل بھی سکتی ہے تو اس کی شرعی حیثیت دقیانوسی اور ظالمانہ طور سے پدرانہ نظام، فیمنزم (مبنی بر ناانصافی)، استعماریت، نوآبادیادیت اور معرفتی نظام کے تئیں مزاحمت والے بیانیوں پر کام کرنے کے لیے بھی بر انگیختہ کر سکتی ہے۔ضروری نہیں کہ یہ معاملہ پل دو پل میں پوری اسلامی تاریخ کی نئی تعبیر کر کے حل ہو جائے، بلکہ اصلاح پسندانہ(سیاست)، مبنی بر مصلحہ(فقہ)، تعمیری(تاریخ)، عقلی(فلسفہ)، منہجی(قرآن و سنت)، جذباتی(تراث)،لسانیاتی(عقیدت)، ترقی پسندانہ(سائنسی) عناصر اور نکات کو اس نہج پر لے جاکر سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جو نہ صرف یہ کہ مقبول ہو بلکہ عوام موافق اور اعتدال پسندانہ بھی ہو، یہی فکری انوسٹمنٹ ہے اور اس کام میں خلوص و للہیت کے ساتھ مادی دنیا کی تفہیم، وقت، انرجی اور توفیق الہی کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کے طریقہ تفکیر پہ تو کافی باتیں ہوئی ہیں ایک یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے خلافت کو اسلامی یوٹوپیا(جہاں ہر چیز ٹھیک ٹھاک اورمطالب بر لانے والے ہونے چاہیئں اور انسان بھی غلطیوں سے پاک ہونے چاہئیں) کی شکل میں جدید دنیا کے لیے پیش کیا مگر جیسا کہ مولانا صلاح الدین یوسف کی تحقیق نئے نکتے پیدا کرتی ہے؛ کہ خلافت کا عقلی-جذباتی نظام ہے جو حکومتی، انتظامی، اقتصادی، ماحولیاتی اور کائناتی مسائل تک کے افکار و علوم کو اپنے دائرے میں رکھتی ہے۔ اور اس بات کو کہنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے کہ اصل اسلام کی عوام کے تئیں ہدایات اور خدمتیں اس نظام کے ہونے سے مکمل طور سے عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔ بلاشبہ سلفی نقطہ نظر سے انقلابی ذہنیت نے اسلامی تاریخ اور تاریخی سیاسی شعور کو ایک صدی سے کرمنلائز(criminalise)کیا ہواہے یا ہائی جیک کرلیا ہےایسے میں ہمارے لکھنے پڑھنے اور سوچنے والے طبقے کے لیے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ کیسے ہم ہماری اسلامی روایت، تاریخ اور سیاسی شعور کو ڈیکرمنلائز(decriminalize)کریں؟اس فکر کی مبادیات میں سے مولانا صلاح الدین یوسف (اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے) کی کتاب اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
نوٹ:اس مقالے کی ابتدائی شکل پر تبصرے اور رہنمائی کے لیے میں مولانا ابوالمیزان(فری لانسر ڈاٹ اِن)کا انتہائی شکر گذار ہوں۔

کتابیات:
محمود احمد عباسی،(1959) خلافت معاویہ و یزید، مکتبہ علم و حكمت،لاہور
احمد،اسرار،(۱۹۶۶)تحریک جماعتِ اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ، دارالاشاعت الاسلامیة، لاہور
ندوی، ابو الحسن علی(۱۹۸۰)، عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح، دار عرفات، لکھنئو۔
نعمانی، محمدمنظور (۱۹۸۰) مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف، مجلس نشریات اسلام کراچی
خان، وحیدالدین (۱۹۶۳)تعبیر کی غلطی، مکتبہ الرسالہ، نئی دہلی۔
علی، ملک غلام (۱۹۷۲)،خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ، اسلامی پبلیکیشنز لمیٹیڈ لاہور
یوسف، مفتي محمد (۱۹۷۳)،مولانا مودودیؒ پر اعتراضات کا علمی جائزہ، اسلامی پبلیکیشنز لمیٹیڈ لاہور
ایھوم، رشيد (مئی ۸، ۲۰۱۸)، المودودي مُنظِّر الحاكمية والجاهلية والدولة الإسلامية،
https://www.almesbar.net/المودودي-مُنظ%D9%90ّر-الحاكمية-والجاهلية/

المودودی، ابوالاعلی (۱۹۸۸)، منهاج الانقلاب الاسلامی،(الطبعة الثالثة)، الدار السعودية لنشر والتوزيع،جدہ
مودودی، ابو الاعلی، (۲۰۱۰)، تجديد و احیائے دین، اسلامی پبلیکشنز لمیٹڈ، لاہور
عمارہ،محمد (۲۰۱۱)، ابولاعلی المودودي الصحوتہ الاسلامیة، دارالسلام لطباعة والنشر اولتوزیع الترجمة، قاھرة

اعظم، کے ایم (۲۰۱۰)، حیات سدید، نشریات، لاہور۔

Ahmad, Irfan (2009), Islamism and Democracy in India, Princeton University Press, Princeton.

Basham, A L (1985), (ed) A Cultural History of India, Oxford University Press, New Delhi.

Hobsbawm, Eric (1995), The Age of Extremes, Abacus,UK.

Iqbal, Muhammad Sir (2018), The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Kitab
Bhavan, New Delhi.

Malik, jamal (2008), Islam in South Asia, Brill, Leiden

Bentley, Michael (1999), Modern Historiography: an Introduction, Routledge, London.

آپ کے تبصرے

3000