صلاۃ التوبۃ اجتماعی اور متعین وقت پڑھنے کا مسئلہ

ذکی نور عظیم ندوی عبادات

ارکان اسلام میں اللہ و رسول کی شہادت کے بعد نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کو مسلمان عام زبان میں عبادات کے نام سے جانتے ہیں۔ ان چاروں عبادتوں میں باہم مشترکہ امتیاز یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالی نے وقت سے مربوط و متعلق کر دیا ہے۔ پانچ فرض نمازیں متعین اوقات میں ادا کی جاتی ہیں، روزہ متعین وقت اور متعین دنوں میں شروع ہوکر متعین وقت اور دن ختم ہوتا ہے۔ حج کے لیے بھی متعین ایام ہیں اور اس کے مختلف مناسک مختلف دنوں میں اوقات کی تحدید کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں۔ زکوۃ کی فرضیت کو بھی مال پر سال گزرنے سے مشروط کیا گیا ہے اور ہر سال ایک خاص مقدار میں زکوۃ نکالنے کا پابند کیا گیا۔
ان عبادات میں ان کے اوقات کی بندش اور حد بندی کچھ تو قرآن کریم کی آیتوں سے ثابت ہے اور بعض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بیان کی گئیں جس میں آج تک کسی بھی شخص کو کسی طرح کی تبدیلی اور کمی و زیادتی کا نہ کبھی اختیار دیا گیا اور نہ ہی کسی بڑے سے بڑے عالم نے اپنے تقوی، علم، قوم و ملت کے بھرپور اعتماد اور سماج میں اعلی رتبہ کے باوجود کسی طرح کی کوئی کوشش اور اس کی جرأت کی۔
وقت کی بندش اور پابندی نماز کے تعلق سے کچھ زیادہ رکھی گئی، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں خود فرمایا:
ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا
(نساء:۱۰۳)کہ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
اسی لیے نماز کے اوقات کو اجمالی طور پر قرآن کریم میں اور تفصیلی طور پر بے شمار احادیث میں بیان کیا گیا۔ پنج وقتہ فرض نمازوں کی وقت کے اندر ادائیگی کو ادا اور اگر وقت کے اندر نہ پڑھ سکے تو پھر قضا مانا گیا۔ جمعہ کی نماز ظہر کے وقت میں ادا کرنے کی تاکید کی گئی اور اگر وقت میں ادا نہ ہو پائے تو جمعہ کا وقت فوت ہو گیا اب اس کی قضا جمعہ کی شکل میں نہیں بلکہ اس کی جگہ ظہر پڑھنی پڑے گی۔
عیدین کی نماز کو بھی چاند ہونے کے بعد صبح سورج نکلنے اور بلندی پر آجانے کے بعد سے زوال سے پہلے تک پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اگر وقت گزر جائے تو انفرادی طور پر پڑھنا ناممکن، اس کی قضا کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ سورج اور چاند گرہن کی نمازوں کا بھی وقت اس طور پر متعین کردیا گیا کہ گہن شروع ہونے کے بعد نماز شروع کی جائے اور ختم ہونے سے پہلے پہلے نماز ختم کر دی جائے۔اگر کوئی نہیں پڑھ سکا تو بعد میں اس کی ادائیگی کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔
نماز استسقاء کے تعلق سے یہ اجازت ضرور ملتی ہے کہ پڑھنے والوں میں اگر مسلم حکمراں نہیں تو آپس میں اس کے طے شدہ وقت(عید کا وقت) میں جس دن جو وقت چاہیں خود متعین کر لیں، لیکن اس کو بھی انفرادی طور پر جب چاہیں پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ہاں جنازہ کی نماز میں سہولت کے اعتبار سے بندے خود وقت متعین کر سکتے ہیں، اس میں شریعت نے انھیں گنجائش دی ہے۔
تراویح، وتر اور تہجد کے لیے رات کا وقت متعین کیا گیا ہے اس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے فجر سے پہلے پہلے تک رکھا گیا۔ تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو کا وقت مسجد میں داخل ہونے اور وضو کے بعد ہے۔ فرض نمازوں کے ساتھ جڑی ہوئی سنتیں جنھیں سنن رواتب کہتے ہیں متعلقہ نمازوں سے پہلے یا ان کے بعد پڑھنے سے مشروط ہیں۔
مذکورہ بالا نمازوں کو ان کے اوقات کی پابندی سے پڑھنا ہی اصل دین اور کار خیر ہے، لیکن اگر نہیں پڑھ سکے تو وقت گزرنے کے بعد شریعت کی اجازت کے بغیر اس کو دوبارہ پڑھنے کی گنجائش نہیں۔ اسی لیے شریعت نے ان تمام نمازوں کو وقت کی رعایت کے ساتھ پڑھنے کا تاکیدی حکم دیا۔
اسلام میں تین اوقات میں کسی بھی طرح کی نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا سورج نکلتے وقت، سورج سر کے اوپر آ جانے(زوال) کے وقت اور سورج غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع کیا۔اور دو اوقات میں نفل اور مسنون نمازیں ادا کرنے سے منع کیا فجر کی نماز کے بعد سے سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سے سورج غروب ہونے تک۔ اس کے علاوہ اوقات میں بندہ اللہ کے قرب اور اس کو راضی کرنے کے مقصد سے جب جتنی نفلی نمازیں پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے اس کی عام اجازت ہے۔
جس طرح وقت کے ساتھ مخصوص نمازوں کے اوقات میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی اور انھیں بے وقت پڑھا نہیں جاسکتا، اسی طرح وہ نفلی نمازیں جن کا وقت قرآن و حدیث میں متعین نہیں کیا گیا ان کے لیے کوئی خاص وقت متعین کرنا بھی شریعت کی روح کے خلاف، اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی، اس میں غیر شعوری تحریف، دین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور قابل تردید عمل اور ایک کھلواڑ ہے۔ اس کی اجازت بڑے سے بڑے کسی عالم بلکہ کسی ملک کے تمام علما ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے تمام علماء کو مشترکہ طور پر بھی حاصل نہیں ہے۔
اسلام میں توبہ کی بہت اہمیت ہے۔ گناہوں کی معافی اور استغفار نماز کے ساتھ بھی کی جا سکتی ہے اور بغیر نماز کے بھی۔ اللہ تعالی نے حکم دیا:
و توبوا الی اللہ جمیعا ایہا المومنون لعلكم تفلحون
( نور:۳۱) کہ اے مومنو تم سب کامیابی کے لیے اللہ سے توبہ کرو۔
دوسری جگہ توبہ نہ کرنے والوں کو ظالم قرار دیا اور فرمایا:
ومن لم یتب فاولئک ھم الظالمون
( حجرات:۱۱)
توبہ کے لیے دو رکعت نفل نماز پڑھ کر بھی توبہ کی جا سکتی ہے جس کو ’صلوٰۃ التوبۃ‘ کہتے ہیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من عبد يذنب ذنبا ثم يتطهر فيحسن الطهور ثم يصلي ركعتين ثم يتوب لله من ذنبه، إلا تاب الله(ترمذی عن أبی بکر)
کہ جب بھی کوئی بندہ گناہ کے بعد اچھی طرح پاک و صاف ہو کر دو رکعت نماز پڑھتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ کو ضرور قبول فرماتے ہیں۔
یہ خیال رہے کہ ’صلوۃ التوبہ‘ کے لیے شریعت میں کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کو اجتماعی طور پر پڑھنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس لیے جس طرح متعین اوقات کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازوں کو بے وقت پڑھنا درست نہیں اسی طرح صلوۃ التوبہ جس کا کوئی خاص وقت متعین نہیں کیا گیا اس کے لیے کوئی وقت متعین کرنا اور اس کی تمام مسلمانوں سے اپیل کرنا بھی شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس طرح کے کام نیک نیتی سے بھی کیے جائیں تب بھی شریعت میں غیر شعوری طور پر تحریف کی شروعات ہو سکتی ہے، اس سے بچنے کی کوشش ہر حال میں سچے مسلمانوں کو ضرور کرنی چاہیے۔
ہاں تمام مسلمانوں سے وقت کی تعیین کے بغیر یہ اپیل کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر جب مناسب سمجھیں صلوۃ التوبہ پڑھ کر اللہ سے اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کریں اور موجودہ وبا کو دور کرنے اور مسلمانوں و تمام انسانوں کی ہر طرح کی بیماریوں، آفتوں، مشکلوں، مسائل اور وبا سے حفاظت کی دعا کریں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mo Mubarak R

شکراً شیخنا المکرم
افادیت سے پر، وہ عبادتیں جو وقت سے مربوط ہیں ان پر مکمل مناقشہ، صلاہ التوبہ کو وقت سے مربوط کرنے کی عدم اجازت ہاں صلاۃ التوبہ کا ترمذی کی روایت سے اثبات،
دلی دعا ہے کہ آپ ہم طلبہ کو اسی طرح کی علمی و عملی مضامین سے فائدہ پہونچا تے رہیں
بارك الله فى علمك و نفع بك الإسلام والمسلمين آمين