رمضان کا مہینہ بے شمار عظمت واحترام کا مہینہ ہے، دن کے فرض روزے، رات میں قیام اللیل، گناہوں کی معافی، رفع درجات اور اللہ کے قرب کے بے شمار مواقع ، اعمال صالحہ کی طرف رغبت اور برے اعمال سے روکنے کے لیے متعین فرشتے، نیکیوں کے اجر و ثواب میں اضافہ، دعاؤں کی قبولیت کے امکانات، شیطان کے محدود اختیارات، انھیں قید و بند کی صعوبتیں، برائیوں کی جانب بڑھتے قدموں کو روکنا۔ جنت کے تمام دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازے بند کرنا اور دوزخ سے بچ کر جنت کے مستحق ہونے کے خصوصی مواقع اور اس مہینہ کے دیگر بے شمار امتیازات۔
یعنی پورا مہینہ خیر و برکت اور اللہ کی رحمتوں کے نزول کا موسم بہار، اور پھر اس کا آخری عشرہ (۲۱-۳۰) ایک طرح سے محاسبہ اور اپنے اعمال کے جائزہ کا عشرہ ’ولتنظر نفس ماقدمت لغد‘(الحشر:۱۸) کہ ہر شخص جائزہ لےکہ آخر اس نے آخرت کے لیے کیا پیش کیا۔ یہی وہ عشرہ ہے جس میں رحمتوں برکتوں اور مغفرت کے دیگر کئی اور مواقع دیے گئے۔ قرآن میں غور سے تو یہ امکان قوی ہوجاتا ہے کہ شاید اسی آخری عشرہ کی اہمیت اور فضیلت کی وجہ سے ہی روزہ کی فرضیت کے لیے رمضان کا انتخاب کیا گیا ’شهر رمضان الذي انزل فيہ القرآن‘ کہ رمضان میں قرآن نازل ہوا۔(البقرہ:۱۸۵)
آخری عشرہ کی ہی ایک شب میں قرآن کریم نازل ہوا، اسی عشرہ میں خاص عبادت اعتکاف کو مشروع کیا گیا۔ اسی عشرے میں سب سے عظیم شب ’لیلۃ القدر‘ دے کر اس کو ایک ہزار راتوں (تقریبا۸۳ سال ۴ مہينہ) سے بہتر قرار دیاگیا اور اس کے قیام و عبادت کو سابقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنا دیا گیا ،’من قام ليلۃ القدر ايمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبه‘(البخاری عن ابی هريرة) اسی لیے اس عشرہ کے خصوصی اہتمام کا نا صرف پابند کیا گیا بلکہ اہل و عیال کو بھی جگانے کی تاکید کی گئی۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ میں خصوصی اہتمام فرماتے اور رمضان کے دیگر ایام کے مقابلے اس میں زیادہ عبادت کرتے ’كان رسول الله صلى الله عليہ وسلم يجتهد فی العشر الأواخر ما لا يجتهد فی غيره‘ ( مسلم عن عائشہ)
شب قدر ایک عظیم تحفہ:
اس عظیم شب میں قرآن کریم نازل ہوا’انا انزلناه فی ليلۃ القدر‘ کہ میں نے اس کو شب قدر میں نازل کیا (القدر:۱) اس کی فضیلت میں قرآن میں پوری ایک سورت ’القدر‘ نازل کی گئی، اس کو ایک ہزار مہینوں (تقریبا ۸۳سال ۴ مہينہ) سے بہتر قرار دیا گیا ’ليلۃ القدر خير من الف شهر‘ کہ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے (القدر:۳) صرف اس رات کے قیام اور عبادت کو سابقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنا دیا گیا ’من قام ليلۃ القدر ايمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘ کہ جو شب قدر میں ایمان و یقین کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(البخاری عن ابی هريرة)
اس رات کو پانے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی آخری عشره کا اعتکاف کرتے رہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ(متفق عليہ عن عائشہ)
اس رات کو پانے کےلیے آخری عشرہ کی راتوں میں اپنے اہل و عیال کو بھی جگایا:
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شد مئزره، وأحيا ليله، وأيقظ أهله(بخارى عن عائشہ) آخری عشرہ آنے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے، راتوں کو عبادت کرتے اور اہل و عیال کو بھی بیدار رکھتے۔
یہی وہ شب ہے جس میں پورے سال کے اہم معاملات طے کیے جاتے ہیں:
فيها يفرق كل أمر حكيم (الدخان:۴)
اس رات ایک خاص دعا پڑھنے کا حکم دیا:
اللهم انك عفو تحب العفو فاعف عني(مسلم عن عائشة)اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے ہمیں بھی معاف فرما دے۔
اور فرمایا کہ جو اس شب محروم رہا وہ واقعی محروم ہے:
مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ(أحمد عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ)
اسی فضیلت کے لیے ’شب قدر‘ آخری عشرہ میں تلاش کرنے کا حکم دیا:
فالتمسوها في العشر الأواخر (مسلم عن ابي هريره)
اور دوسری جگہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی تاکید کی:
تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان(بخاری عن عائشہ)
موجودہ حالات میں شب قدر:
گذشتہ سالوں سی اے اے،این آر سی اور ان پی آر کے نام پر جس طرح مسلمانوں اور کمزور طبقات کو تشویش میں مبتلا کر کےملک میں آپسی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عمومی فضا کو تار تار کیا گیا تھا۔ اسی طرح حالیہ دنوں کورونا وائرس سے نہ جانے کتنے لوگ جان کی بازی ہار چکے اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا اور تشویش ناک ہی ہوتا جا رہا ہے، روزانہ لاکھوں نئے افراد اس سے دوچار ہو رہے ہیں، کتنے افراد کو اس صورت حال نے بے یار و مددگار بھوکا پیاسا روتا بلکتا چھوڑ دیا، کسی حد تک قیامت کی حقیقی تصویر آنکھوں کے سامنے، کسی کو کسی سے واسطہ نہیں، ہر ایک اپنے تئیں فکر مند، اس سے بچنے کے لیے سیاسی و سماجی تدبیریں اور میڈیکل سائنس میں ملنے والے علاج اوراحتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے ساتھ لوگوں نےاللہ سے رجوع اور دعا کی جانب خصوصی توجہ دی۔
اللہ کا فضل ہے کہ اسی درمیان اللہ کی خصوصی توجہ کا مہینہ رمضان آ گیا اور اب اس کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر بھی آنے کو ہے۔ جو امید کی کرن اور ایک عظیم نعمت ہے۔ اللہ نے فرمایا’وما أدراك ما ليلة القدر‘کہ تمھیں اس کی قدر و منزلت اور اہمیت و عظمت کا کہاں پتہ؟ ’ليلة القدر خير من ألف شهر‘ یہ تو اجر و ثواب،اللہ کے لطف و عنایت، دعا و فریاد، توبہ واستغفار، تلاوت و عبادت اور توجہ وتقرب کے لیے ایک ہزار مہینوں سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔۔۔۔ ’تنزل الملائكۃ والروح فيها بإذن ربهم‘ یہ وہ شب ہے کہ جس میں فرشتے اور حضرت جبرئیل اللہ کے حکم اور مرضی سے آتے ہیں یعنی بندوں کی عبادت و تلاوت، اللہ سے لگاؤ، گناہوں پر ندامت، اس سے معافی و تلافی، دعا کے لیے اٹھنے والے ہاتھوں، پناہ مانگنے والی صداؤوں کو دیکھنے اسے اللہ تک پہنچانے اس کی قبولیت و باریابی کا پروانہ دینے اور اسے اللہ تک پہنچانے کے لیے آتے ہیں۔۔۔۔۔’من كل أمر سلام‘یعنی یہ فرشتے تمام مسئلوں، مصیبتوں، آفتوں، بیماریوں، وباؤں، پریشانیوں اور دیگر تمام تکلیف دہ امور کے لیے سلامتی اور حفاظت کا پیغام اور اعلان بھی کرتے ہیں:’هی حتى مطلع الفجر‘ اور یہ صرف چند منٹوں یا ساعتوں تک ہی نہیں بلک پوری رات یہاں تک کہ صبح صادق کے آخری لمحے تک جاری و ساری رہتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی اس رات محروم رہ جائے تو پھر اسے محرومی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔’من حرم خيرها فقد حرم‘(احمد عن ابی هريره)اور اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں خود بھی جگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔
اس قدر لاپرواہی کیوں:
کیا مسلمان پوری دنیا میں ہر اعتبار سے ذلت وخواری، ظلم و زیادتی، حق تلفی و بےبسی اور پریشانی ولاچاری کے باوجود اتنی عظیم رات کی تلاش میں صرف ۵ راتیں صحیح سے عبادت و تلاوت اور ذکر ودعا بھی نہیں کرسکتے؟ جبکہ بہت سے لوگ رمضان میں رات بھر سوتے ہی نہیں اور لاک ڈاؤن میں رات میں جگنے کے بعد دن میں سونے کا خوب موقع بھی ہے۔۔۔۔ لیکن افسوس اس کی طرف کوئی توجہ نہیں، اور اگر کسی نے کچھ اہتمام کیا توصرف ۲۷ ویں شب ۔ یہ صحیح ہے کہ ابی ابن کعب سے علامتوں کے پیش نظر ۲۷ویں شب کے ہونے کا تذکرہ ہے:
أنَّها لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ (مسلم عن أبي بن كعب)
لیکن دوسری حدیثوں میں ۲۱ویں:
هي لَيْلَةُ إحْدى وَعِشْرِينَ مِنَ العَشْرِ الأواخِرِ(مسلم عن ابي سعيد الخدري )
اور ۲۳ویں:
وَكانَ عبدُ اللهِ بنُ أُنَيْسٍ يقولُ: ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ(مسلم)
اور بعض میں آخر کی سات راتوں میں ہونے کا تذکرہ ہے:
التمسوها في السبع الاواخر (البخاري عن ابن عمر)
اور کئی محدثین ہرسال الگ الگ راتوں میں ہونے کے بھی قائل ہیں۔…. جب کہ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے خواب دیکھا کہ یہ ۲۷ویں شب میں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ یہ آخری عشرہ میں ہے لہذا اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو:
أرى رؤياكم في العشر الأواخر فاطلبوها في الوتر منها (متفق عليه عن ابن عمر)۔…..اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے لیے پورے عشرہ کا اعتکاف فرمایا۔ اور یہ فرمایا کہ مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی لیکن میں بھول گیا:
قد رأيتها هذه الليله فأنسيتها (البخارى عن ابى سعيد الخدرى) اور باقاعدہ حکم دیا کہ اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو:
التمسوها في العشر الأواخر من رمضان (البخاري عن ابن عباس)
دوسری جگہ حکم دیا کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو:
تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأخير من رمضان (متفق عليہ عن عائشہ)
تو آئیے طے کر لیں کہ ان شاء اللہ اب تمام راتوں میں عبادت، تلاوت اور دل لگا کر دعا کریں گے، اللہ ضرور حالات سازگار کرے گا کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
أنا عند ظن عبدی بی(متفق عليہ عن ابی هريرہ) بندہ مجھ سے جیسی امید رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔
اور ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أدعوا الله وأنتم موقنون بالإجابة (ترمذى) اللہ سے اس طرح دعا کرو کہ تمھیں قبولیت کا پورا یقین ہو۔
آپ کے تبصرے