موجودہ دور کی مہیب اور خوفناک جنگوں میں سے ایک یمن جنگ بھی ہے جس کی ابتدا کو تقریباً چھ سال ہوچکے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ میں پچاس ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں ایک تہائی تعداد عام شہریوں کی ہے، سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بھی سعودی عرب کے ہوائی اڈے، تیل تنصیبات اور شہری آبادی حوثی ملیشیا کے ڈرون اور بالسٹک میزائلوں کے نشانے پر ہیں، اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں یمنی عوام بھکمری، قحط سالی اور مختلف امراض کا شکار بن رہے ہیں، دنیا بھر کے زعماء اور رہنماؤں کی جانب سے باربار جنگ بندی قبول کرنے کی اپیل کے باوجود حوثی جنگ بندی پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین پراکسی وار کی ایک خوفناک مثال بن چکی اس جنگ کے کیا اسباب وعوامل ہیں؟ حوثی ملیشیا کون ہیں اور انھوں نے کیوں یمن کی آئینی حکومت کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا؟ سعودی عرب اس جنگ میں کودنے پر کیوں مجبور ہوا ؟ اس مختصر مضمون میں ان باتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
حوثی تحریک کا آغاز وارتقا
حوثی تحریک کی ابتدا یمن کے زیدی اکثریتی صوبے صعدہ میں ہوئی۔ زیدی، شیعوں کا وہ فرقہ ہے جو اعتقاد میں سنی مسلمانوں کے سب سے زیادہ قریب ہے، یہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے پوتے زید بن علی کی طرف اپنا انتساب کرتے ہیں، یہ شیعوں کے متشدد فرقوں کے عقائد کے برعکس خلفاء راشدین کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کی شان میں گستاخی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
۱۹۸۶ء میں صعدہ کے بڑے بڑے زیدی علماء نے اکٹھے ہو کر ’نوجوان اتحاد‘ کے نام سے ایک ادارے کی تشکیل کی، اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد زیدی مذہب کی تعلیمات کو عام کرنا اور زیدی عوام کی دینی رہنمائی کرنا تھا، اس ادارے نے جن علماء کو اس کام کے لیے مامور کیا تھا ان میں موجودہ دور کے حوثی لیڈر عبد الملک حوثی کے والد بدر الدین حوثی بھی شامل تھے ،جو صعدہ کے انتہائی اثر و رسوخ والے علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔
۱۹۹۰ء میں جب جنوبی اور شمالی یمن میں اتحاد قائم ہوا تو اس ادارے کی سرگرمیاں بھی بڑھتی چلی گئیں، بدر الدین حوثی کے بڑے بیٹے حسین بدرالدین الحوثی نے ’الشباب المؤمن‘ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم قائم کی تاکہ سنی مسلمانوں کی طاقتور تنظیم حزب الاصلاح کا مقابلہ کیا جاسکے، چونکہ یمن پر تقریباً ایک ہزار سال تک زیدی مذہب کے اماموں نے حکومت کی تھی اس لیے اس عہد گم گشتہ کو پانے کے لیے حسین بدرالدین الحوثی نے ملک کی اس وقت کی علی عبداللہ صالح حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور صعدہ اور عمران جیسے زیدی اکثریتی صوبوں میں اپنی طاقت بڑھالی،۱۹۹۷ء میں بدر الدین حوثی نے ایران کا سفر کیا اور اثنا عشری عقیدہ سے کھلم کھلا اپنی وابستگی کا اظہار کیا، واضح رہے کہ اثنا عشری شیعوں کے متشدد فرقوں میں سے ایک ہے ، یہ اہل سنت کا شدید مخالف اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کرنے والا فرقہ ہے، بدرالدین الحوثی کا یہ عمل زیدی مذہب کی بنیادی تعلیمات سے انحراف تھا لیکن اپنی چرب زبانی سے اس نے عام زیدی عوام کو اپنا ہمنوا بنا لیا، علی عبداللہ صالح کی حکومت نے شروع میں سختی سے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی اور اسی دوران ۲۰۰۴ء میں حسین بدرالدین حوثی سرکاری فوج کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا، اب اس تحریک کی قیادت اس کے والد بدر الدین حوثی نے سنبھال لی۔
مشرق وسطی میں بہار عرب تحریک(الربيع العربی)
واضح ہو کہ ۱۷؍دسمبر۲۰۱۰ سے خطہ عرب میں بے روزگاری اور فسادکو روکنے کے نام پر برپا ہونے والی یہ تحریک جس نے لیبیا، تیونس ،مصر ،یمن جیسے ممالک پر برسوں سے حکومت کرنے والے حکمرانوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا اور جس تحریک کے اثرات بد کا سامنا آج تک شام، یمن اور لیبیا کے باشندے کر رہے ہیں ، اس تحریک کی وجہ سے لاکھوں شامی مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوگئے لیکن مغرب کی عیار اور مکار سیاست کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے کہ فساد اور بگاڑ کی اس تحریک کا نام اہل مغرب نے Arab Springرکھا ، گویا جس طرح سے انسان موسم بہار کی دلکشیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح مسلم ممالک میں انارکی، ویرانی اور ہلاکت کے مناظر دیکھ کر انھیں خوشی اور لذت ملی ۔ فاعتبروا يا أولي الأبصار
اس مفسدانہ تحریک کے نتیجے میں على عبدالله صالح حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور عبد ربہ منصور ھادی کی نسبتاً کمزور حکومت نے زمام اقتدار سنبھال لیا ، حوثی باغیوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا انھوں نے عوامی ناراضگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یمن کے اکثر حصوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا، انھیں ایران اور لبنانی حزب اللہ کی جانب سے بھرپور امداد مل رہی تھی ، عبد ربہ منصور ھادی صنعاء سے عدن اور پھر وہاں سے ریاض منتقل ہو گئے، سعودی جو پہلے سے ہی مشرق وسطی میں ایرانیوں کے اثر و نفوذ سے پریشان تھے ان کے سامنے ایک خوفناک صورتحال آگئی تھی ، ایرانی تو ہمیشہ سے اس بات کے خواہشمند تھے کہ انھیں کیسے سعودیوں کو ڈرانے کا موقع ملے اور وہ ان پر چڑھ دوڑیں ، سقوط صنعاء کے بعد سعودیوں کو لگا کہ حوثی باغیوں کی شکل میں ایک حقیقی خطرہ ان کی جنوبی سرحد پر منڈلانے لگا ہے۔ اور اس خطرے کی سنگینی میں مزید اضافہ حوثیوں کے طرز عمل نے بھی کیا جب انھوں نے صنعاء پر قبضہ کرنے کے بعد ۴۰۰ بالسٹک میزائلوں کو سعودی سرحد کے قریب لے جاکر اسٹور کردیا، سعودیوں کو لگا کہ اگر شروع میں ہی اسے سختی سے نہیں کچلا گیا تو جنوبی سعودی عرب عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا، چنانچہ نوجوان شہزادے محمد بن سلمان نے تیزی سے حرکت کی اور مصر، امارات، کویت، بحرین، سوڈان، مراکش اور مختلف خلیجی واسلامی ممالک اتحاد کی تشکیل کرکے یمن کی آئینی حکومت کی بحالی کے لیے عاصفة الحزم (عزم و ارادے کی آندھی) کے نام سے ۲۵؍مارچ۲۰۱۵کو آپریشن شروع کردیا، چونکہ اس اتحاد میں شامل مختلف ممالک پہلے سے ہی ایرانیوں کے اثر و نفوذ سے پریشان تھے اس لیے انھوں نے پوری قوت سے اس اتحاد میں شرکت کی ، بہت جلد یمن کی سرکاری فوج اور عوامی مزاحمت کاروں نے عرب اتحاد کے تعاون سے حوثیوں کو کھدیڑ دیا اور انھیں صعدہ عمران محویت، ذمار، صنعاء اور تعز میں محصور کر دیا، ابتدائی کامیابیوں سے سرشار اس اتحاد نے یمن کی تعمیر نو اور باقی ماندہ علاقوں سے حوثیوں کو مار بھگانے کے لیے ۲۵؍اپریل ۲۰۱۵ء کو إعادة الأمل (امید کی بحالی) کے نام سے دوسرا آپریشن شروع کیا، لیکن ابتدائی شکستوں کے بعد حوثیوں نے اپنی چالیں بدل دیں ، ایرانی اور لبنانی حزب اللہ پوری طاقت سے ان کی پشت پر آکھڑے ہوئے ، اسلحہ جات اور جنگی مشیروں کو بھیج کر انھوں نے اس جنگ کو طول دینے میں کامیابی حاصل کر لی، یمن کی جغرافیائی صورت حال دنیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ ہے ، پہاڑوں میں بنے غاروں اور سرنگوں نے حوثیوں کی بڑی مدد کی ، انھوں نے اپنی اعلی قیادت کو ان پہاڑوں میں چھپا دیا، بعض یمنی قبائل کی دھوکہ دھڑی اور بعض مغربی ممالک کی خاموش تائید کی وجہ سے حوثی باغی مذاکرات کی میز پر بھی مضبوط ہوتے گئے اور عام عوام کی حالت دگرگوں ہوتی چلی گئی۔
نئی امریکی حکومت اور حوثیوں کی شرانگیزی
ادھر امریکہ میں صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت اور جوزف بائیڈن کے انتخاب نے بھی سعودی عرب کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ بدلتے عالمی حالات کے مطابق اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرے۔ بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب کو انٹلیجنس اور لاجسٹک سہولیات کی فراہمی بند کر دی اور اسلحہ کی فروخت پر نہ صرف پابندی عائد کردی بلکہ سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کے طریقہ کار سے مکمل انحراف کرتے ہوئے حوثیوں سے مذاکرات کے لیے ٹم لینڈ کنگ کی شکل میں اپنا خاص ایلچی بھی مقرر کر دیا جو سعودیوں کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ اب امریکی ان کی غیر مشروط حمایت نہیں کرسکتے، واضح ہو کہ لینڈ کنگ مشرق وسطی کے امور پر گھاگ امریکی سفارت کاروں میں سے ایک ہیں ، ایلچی نامزد ہوتے ہی انھوں نے یمن کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر مارٹن گریفیچ سے ملاقات کی جسے سعودی اتحاد، حوثیوں کی طرف واضح میلان کی وجہ سے ناپسند کرتا تھا۔ ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے اور یمنی عوام کی زبوں حالی کو دور کرنے کے لیے سعودی اتحاد نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا، لیکن بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردوں کی فہرست سے خود کو خارج کیے جانے سے مسرور حوثیوں نے اس جنگ بندی کو سعودیوں کی کمزوری پر محمول کیا اور بائیڈن کے منصب صدارت سنبھالنے کے کچھ دن بعد ہی سعودی عرب کے جدہ اور ابہا کے ائیر پورٹ کو خودکش ڈرونز سے نشانہ بنایا، ریاض، خمیس مشیط ،جیزان، ابہا، جیسے شہر ان کے میزائل حملوں کا شکار ہوتے گئے ، ان کی دیدی دلیرہ کی اس سے زیادہ واضح مثال کیا ہو سکتی ہےکہ انھوں نے مکہ مکرّمہ جیسے مقدس شہر کو بھی نشانہ بنانے کی ناپاک جسارت کی، ارامکو کی تیل تنصیبات کو ٹارگٹ کرکے انھوں نے سعودی عرب کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی، بائیڈن کی منصب برداری کے بعد انھوں نے فروری کے پہلے ہفتے میں تقریباً سترہ حملے کیے اور رمضان کےمبارک مہینے میں بھی ان کی جارحیت جاری ہے، ان حملوں پر امریکہ کی سردمہری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بائیڈن سعودی عرب کی حمایت ترک کر کے ایران کے شیطانی منصوبوں کی تائید کرنا چاہتے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے ان شیطانی کاروائیوں کے تسلسل سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں سعودی عرب کی قوت برداشت جواب نہ دے دے اور وہ پھر پوری قوت سے اس جنگ میں نہ کود پڑے۔
دعوت اتحاد کی حقیقت
مذہب اسلام اتحاد اور اجتماعیت کا دین ہے۔ ملت اسلامیہ دین سے تمسک اور آپسی اتحاد کے بغیر کبھی مستحکم اور بارعب نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے حکومتوں، تنظیموں اور بااثر شخصیتوں کو مخلصانہ کوششیں کرنی ہوں گی اور منافقانہ رویہ چھوڑنا ہوگا۔لیکن آج وہ لوگ جو اکثر اتحاد امت کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں ہمیشہ وہ ملامتوں کے تیر سعودی عرب پر چلاتے ہیں جب کہ ان کی زبان وقلم سے شام ، عراق اور خود ایران کے اندر اہل سنت کے اوپر ہونے والے مظالم، ان کی نسل کشی اور عزت و آبرو کی پامالیوں پر ایک لفظ بھی نہیں نکلتا۔ انھیں شاید یہ بات نہیں معلوم ہے یا وہ تجاہل عارفانہ کرتے ہیں کہ اثنا عشری شیعوں نے اسلام اور مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔درحقیقت سانحہ بغداد سے لے کر حکومت عثمانیہ کے خاتمہ تک ان شیعوں اور صفویوں کا ہی بڑا رول رہا ہے۔ ان کے سیاہ کارنامے تاریخ کے صفحات میں مرقوم ہیں، آج جو ایران اتحاد امت کی دعوت دیتے نہیں تھکتا اس نے خود اہواز، سیستان اور بلوچستان جیسے سنی اکثریتی صوبوں میں رہنے والے سنیوں کی جو ابتر حالت کر رکھی ہے اس پہ وہ کبھی ایک لفظ سننا گوارا نہیں کرتا۔ ایران کے دار الحکومت تہران میں یہودیوں کی عبادت گاہیں موجود ہیں لیکن سنیوں کی کوئی جامع مسجد نہیں ہے، اتحاد یقینا بہت اچھی چیز ہے لیکن جب اتحاد کی دعوت دینے والے دوسروں کے اعتقاد اور وجود کو ہی ختم کرنے کے درپے ہوں تو یہ دعوت شیء لاحاصل ہوگی،ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانان عالم ان صفوی اور مجوسی سازشوں سے خبردار رہتے ہوئے ان کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہو جائیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو آپسی جنگ وقتال سے بچائے، دنیائے اسلام کو امن وعافیت سے نوازے اور اہل حق کو اہل باطل پر غلبہ نصیب کرے۔ آمین
آپ کے تبصرے