آہ! عبدالسّلام رحمانیؔ رحمہ اللہ

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

استاذ گرامی عبدالسّلام رحمانیؔ رحمہ اللہ
(جمادی الاخری ۱۳۵۷ھ= اگست ۱۹۳۸ء- ۲۵؍صفر۱۴۳۵ھ= ۲۹؍دسمبر ۲۰۱۳ء)


علم و اخلاق میں تھے لاثانی

قول و کردار میں مسلمانی

ہرادا میں تھی شان ربانی

ہم سے وہ چل بسے بہ آسانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


ان کو اللہ کی ملی توفیق

ان کی ہر بات میں رہی تحقیق

اور مسائل میں بھی وہی تدقیق

وہ حدیثیؔ تھے اور قرآنیؔ

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


درس و تدریس میں مہارت تھی

ان کی تحریر میں جسارت تھی

ان کے حصے میں جو ادارت تھی

اس میں حکمت کی تھی فراوانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


جب جماعت کی جیب تھی خالی

ان کی اس وقت تھی جواں سالی

ان کو تفویض عہدۂ عالی

یاد ہے سب کو ان کی قربانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


کاش ان جیسے نیک طینت ہوں

جو جماعت کی اپنی زینت ہوں

باہنر اور باعزیمت ہوں

ہو قیادت کی ختم حیرانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


پند و حکمت سے وہ نہ خالی تھا

وقت پر وہ بہت جلالی تھا

ان کا انداز گو جمالی تھا

کتنی پر نور ان کی پیشانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


خوش لباسی تھی سادگی ان کی

اس سے بڑھتی تھی تازگی ان کی

بزم آرا تھی ماندگی ان کی

علم و شعر و ادب زباں دانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


ان کی گفتار میں تھی شیرینی

ان میں فطرت کی ساری رنگینی

ان کی معروف تھی جہاں بینی

ہندؔ کے بن بطوطۂ ثانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


دعوت حق کی راہ دیکھی ہے

علم کی درس گاہ دیکھی ہے

دنیا بھی بے پناہ دیکھی ہے

ان کی دعوت میں طرز میدانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


ان کا شہرہ رہا ممالک میں

ان کی مقبولیت مسالک میں

شافعیؔ حنبلیؔ موالکؔ میں

وہ تھے فیجیؔ میں خیر کے بانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


ان میں حد درجہ خاکساری تھی

علم و حکمت کی آبیاری تھی

یہ تو فطرت کی رازداری تھی

کچھ نہ تھا جذبۂ ہمہ دانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


سب سے بڑھ کر تھی ان کی یہ خوبی

عام ماحول میں تھی محبوبی

ان میں کچھ بھی نہیں تھی مرعوبی

بزم میں فقہ و فن کی ارزانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


گر کوئی امر جاہلانہ تھا

ان کا اخلاق عالمانہ تھا

ان کا انداز مشفقانہ تھا

ان کے سر پر تھا تاج عرفانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


ذہن میں تازہ ان کی کیفیّت

دل میں باقی ہے ان کی حیثیّت

رب سے مطلوب ان کی خیریّت

شخصیت میں تھی طرزِ ایمانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


بزم ہستی میں ہے ریاکاری

اس کی مشکوک ہے وفاداری

کیا امیری ہے کیا ہے ناداری

ایک باقی ہے اور سب فانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


شب میں جیسے ہو تیر اندازی

موت کے سامنے بنے غازی

زندگی کی، غلط ہے، دم سازی

ختم ہے بس یہیں پہ طولانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


دنیا فانی ہے اور ہلاکی ہے

جو بھی آیا وہ غم سے شاکی ہے

بندہ خاکی تھا اور خاکی ہے

قبر میں اس کی ہو نگہبانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


اب برابر ہیں فقرو شاہانہ

ہوگیا ہے زمانہ بے گانہ

کام آئے نہ کوئی یارانہ

رب ہی ان کی کرے گا نگرانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


بندہ تیرے حضور ہے حاضر

تو ہی رحمان تو ہی ہے قاہر

دور کر دے کہ تو ہی ہے قادر

سب مراحل میں ہر پریشانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


ان کو بس تیرا ہی سہارا ہے

اب نہیں اور کوئی یارا ہے

ہر سو بس تجھ کو ہی پکارا ہے

ان کا شیوہ تری ثنا خوانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


مجھ کو بتلائے کوئی چارہ ہو

علم کا کیسے اب اجارہ ہو

کیسے اب پورا یہ خسارہ ہو

موت عالم ہے موت انسانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


ہے دعا ان کی ہو پذیرائی

قابل قدر ہو جبیں سائی

ان کی خاطر ہو بزم آرائی

جنت الخلد میں ہو مہمانی

آہ! عبدالسلام رحمانیؔ


صلاح الدین مقبول احمد مصلحؔ نوشہروی
۳۰؍دسمبر ۲۰۱۳ء

آپ کے تبصرے

3000