رمضان جا رہا ہے

انصاری ظاہرہ شعروسخن

ہیں اشکبار آنکھیں رمضان جا رہا ہے

رنج و الم ہے چھایا رمضان جا رہا ہے


رحمت لیے ہمارے در پہ جو آگیا تھا

افسوس ہے ہمیں وہ مہمان جا رہا ہے


بخشش کا تھا وہ ذریعہ، شیطان تھا مقید

اور مغفرت کا ذریعہ غفران جا رہا ہے


برکت سے پر وہ دن تھے،رحمت سے پر وہ راتیں

لذت عبادتوں میں نعمان جا رہا ہے


سحری میں جوش بھی تھا،افطاریوں میں رونق

قسمت عروج پر تھی عرفان جا رہا ہے


وہ شب قدر کی نعمت، تقوی، نماز، روزے

آزادیٔ جہنم سامان جا رہا ہے


تمثیل صبر لایا، ساعت قبولیت کی

افعال نیک و بد میں فرقان جا رہا ہے


ہے بس دعا الہی بے حیثیت عبادت

کر لے قبول مولا فیضان جا رہا ہے

آپ کے تبصرے

3000