رمضان کے بعد یہ چار کام کریں

شہاب الدین کمال متفرقات

ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی اللہ عزوجل جنت کے سارے دروازے وا کر دیتا ہے۔ جہنم کے تمام دروازے بند کر دیتا ہے۔ اور شیاطین کو جکڑ دیتا ہے تاکہ اللہ کے بندوں کو بہکا اور ورغلا نہ سکیں۔ایک ایسی ایمانی فضا قائم ہوتی ہے کہ دنیا کی رنگینیوں میں رنگا ہوا اور راہ راست سے ہٹا ہوا شخص بھی اپنی بری خصلتوں کو ترک کرکے صیام و قیام اور تلاوت کلام کا اہتمام کرنے لگتا ہے۔ گناہوں اور نافرمانیوں والی زندگی سے تائب ہوکر یکسر اپنے آپ کو تبدیل کرلیتا ہے۔ ماہ رمضان اس کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ دل میں گناہوں کی قباحت و شناعت بیٹھ جاتی ہے اور طبیعت نیکیوں کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔پھر دوبارہ وہ گناہوں کی جانب نہیں پلٹتا ہے اور ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔
اکثر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ رمضان میں اپنی بری عادتوں کو ترک کردیتے ہیں، گناہوں اور نافرمانیوں کے چھینٹوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے فرائض کے اہتمام کے ساتھ ساتھ سنن ونوافل اور ذکر واذکار سے اپنی زبانوں کو تر رکھتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی شوال کا چاند نظر آتا ہے گناہوں کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ ایسا کرنا اپنی نیکیوں کو اپنے ہی ہاتھوں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
رمضان کے بعد نافرمانیوں اور من مانیوں والی زندگی کی طرف پِھر جانے کے بجائے ہمیں پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ رمضان میں جو پرہیزگاری اور تقوی ہمارے اندر پیدا ہوا ہے اس کو پروان چڑھائیں۔
اللہ کے ڈر سے جس طرح ہم رمضان میں ہر چھوٹے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے تھے اسی طرح جب تک ہماری سانسیں چلیں ہمیں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے ۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسۡلِمُونَ
(آل عمران:۱۰۲)اے مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرتے دم تک مسلمان رہو۔
دوسرا کام: رمضان میں ہم جس اہتمام سے نمازوں اور دیگر عبادتوں کی پابندی کرتے تھے، رمضان کے گزر جانے کے بعد بھی اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ یَأۡتِیَكَ ٱلۡیَقِینُ
(الحجر:۹۹)جب تک تمھیں موت نہ آجائے اللہ کی بندگی کرتے رہو۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
وأنَّ أحَبَّ الأعْمالِ إلى اللَّهِ أدْوَمُها وإنْ قَلَّ
(صحیح البخاری:۶۴۶۴) اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے محبوب اور پسندیدہ وہ عمل ہوتا ہے جس پر ہمیشگی اور دوام برتا جائے خواہ وہ عمل تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
لا تَكُنْ مِثْلَ فُلانٍ كانَ يَقُومُ اللَّيْلَ، فَتَرَكَ قِيامَ اللَّيْلِ
(صحيح ابن ماجہ:۱۱۰۴)یعنی تم فلاں شخص کے مثل نہ ہوجانا جو رات میں قیام کرتا تھا پھر اس نے قیام الیل کو ترک کردیا۔
تیسرا کام: ماہ رمضان میں کی گئی نیکیوں کی قبولیت کے لیے دعائیں کرنی چاہیے۔
اسلاف کرام کا طرز عمل یہ تھا کہ چھ ماہ پہلے سے ماہ رمضان پانے کی دعائیں کرتے تھے اور جب رمضان کا مہینہ بیت جاتا تو چھ مہینے یہ دعائیں کرتے تھے کہ ہم نے جو نیکیاں کی ہیں انھیں قبول فرما لے۔ سلف صالحین کے اس طریقہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بھی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
چوتھا کام: شوال کے چھ نفلی روزے رکھنے چاہئیں۔ اللہ کے حبیب ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من صام رمضانَ ثم أَتْبَعَهُ بستٍّ من شوالٍ فكأنما صام الدَّهرَ
(مسلم:۱۱۶۴)جس بندے نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزوں کا بھی اہتمام کیا تو گویا اس سے پورے سال روزے رکھے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ماہ رمضان میں کی گئی ہماری چھوٹی بڑی نیکیوں کو قبول فرمائے اور جانے انجانے میں جو گناہ سرزد ہوئے ہوں ان سے درگزر فرمائے۔ اور عبادات پر دوام برتنے کی توفیق بخشے ۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000