عشق کا مرحلہ محال بھی ہے
راہ مشکل ہے پائمال بھی ہے
کچھ مرے آئنے میں بال بھی ہے
کچھ مکدر ترا جمال بھی ہے
وہ ستم گر ہے خوش خصال بھی ہے
’’کچھ خوشی بھی ہے کچھ ملال بھی ہے‘‘
کیا کہیں اس فراق کی بابت
سنگ ہے زینۂ وصال بھی ہے
مستقل جل رہی ہے سینے میں
آگ جو نور کی مثال بھی ہے
ذہن و دل میں بلا کا ہے آشوب
اور کچھ کچھ ترا خیال بھی ہے
پاؤں اٹھتے نہیں تھکاوٹ سے
اور منزل کا احتمال بھی ہے
یوں تو آزاد ہے پرندۂ جاں
چار سو زندگی کا جال بھی ہے
کون سمجھائے ان پرندوں کو
دانے دانے میں ایک جال بھی ہے
ہائے مزدور کی سحر اے شاد!
جسم بیدار ہے نڈھال بھی ہے
آپ کے تبصرے