ایک ہی شخص یاد آتا ہے

سحر محمود شعروسخن

اس کا مجھ سے عجیب ناتا ہے

ہر گھڑی مجھ کو آزماتا ہے


دل پہ لگتا ہے جب بھی زخم نیا

ایک اک کرب جاگ جاتا ہے


موج زن ہے وہ میری آنکھوں میں

صورت اشک جھلملاتا ہے


یہ بھی کچھ کم نہیں کہ میرے ساتھ

کوئی تو ہے جو مسکراتا ہے


جانتا ہے کہ بے وفا ہے حیات

آدمی پھر بھی دل لگاتا ہے


دشمن جاں! مرے تعاقب میں

خود کو بے کار میں تھکاتا ہے


سوچتا ہوں یہ بیشتر اوقات

پیار میں کون جاں گنواتا ہے


باپ اولاد کی خوشی کے لیے

اپنا سب داو پر لگاتا ہے


جانے کیا بات ہے سحر محمود

ایک ہی شخص یاد آتا ہے

آپ کے تبصرے

3000