لفظ کی دھار سے ہم موت گوارا کرتے

ابوالمرجان فیضی شعروسخن

لفظ کی دھار سے ہم موت گوارا کرتے

ان کا دستور ہے خنجر نہیں مارا کرتے


وہ خدا بن گئے جو یار تھے پہلے میرے

پھر کوئی کام بھلا کیسے ہمارا کرتے


آفلائن نہ ملے شیشہ دل ٹوٹ گیا

سبز بتی پہ بھلا کیسے گزارا کرتے


یہ ریاکاری ہے جو بھوک مٹاتی ہو فقط

لذت روح و بدن اس کو پکارا کرتے


کیا ضروری تھا کہ اس برق کو چھونے کے لیے

روح کو جسم کے کاندھوں سے اتارا کرتے


لن ترانی سے جدا لن جو اگر ہوسکتا

یار تو یار ہیں ثاقب بھی نظارا کرتے

آپ کے تبصرے

3000