مال کو وصل کا معیار بنا ڈالا ہے

ابوالمرجان فیضی شعروسخن

مال کو وصل کا معیار بنا ڈالا ہے

پھول کو کس طرح تلوار بنا ڈالا ہے


جب سمجھتے ہی نہیں کوئی گلہ کیسے کروں

خامشی کو ہی اب ہتھیار بنا ڈالا ہے


ساری دنیا کو ہے بے دام محبت کا زعم

کس نے پھر دنیا کو بازار بنا ڈالا ہے


نوکری پیشہ بھی ہیں باس کے شوہر بھی ہیں

بس اسی چیز نے مکار بنا ڈالا ہے


جو ہے ہونا وہی ہوتا ہے سدا تو کیوں کر

عشق و جذبات کو سردار بنا ڈالا ہے


پوری دنیا تو عبث ہو نہیں سکتی ثاقب

صرف مجھ کو ہی کیوں بے کار بنا ڈالا ہے

آپ کے تبصرے

3000