مولانا عبد الرؤف خاں ندوی سے شرف ملاقات
استاد ذوق کا ایک خوبصورت شعر ہے:
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
جماعت اہل حدیث ہند کے معروف عالم دین، مصنف، محقق، صحافی اور معرکۃ الآرا کتابی سلسلے ’’کاروان سلف‘‘ کے مصنف و مرتب فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالرؤف خان ندوی حفظہ اللہ سے ملاقات اگر چہ کسی ہمدم دیرینہ سے ملاقات نہیں تھی لیکن مسیحا و خضر سے ہونے والی ملاقات سے کہیں بہتر اور لطف انگیز تھی۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس ملاقات نے مجھے ایک ناقابل بیان کیفیت سے سرشار کر دیا اور یہ کیفیت کئی دنوں تک میرے ہوش و حواس پر طاری رہی۔ مولانا ندوی کو میں ہمدم دیرینہ نہیں کہہ سکتا اور وہ ہمدم دیرینہ ہیں بھی نہیں۔ وہ میرے لیے بہت معزز اور محترم ہیں۔ لہٰذا میں انھیں برادر بزرگ کہوں گا۔ یہ ملاقات سال 2025 کی عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے وطن کرنجوت بازار لوہرسن ضلع سنت کبیر نگر، اترپردیش کے سفر کے موقع پر 15 جون کو تلسی پور، ضلع بلرام پورمیں واقع ان کے دولت کدے پر ہوئی۔ ان سے ملنے کی خواہش تو ایک عرصے سے رہی ہے البتہ اس خواہش کی تکمیل اب جا کر ہوئی۔
یہ غالباً 2015 کی بات ہے۔ دہلی میں اردو کتابوں کے ایک پبلشر ہوا کرتے تھے نعمان فاروقی۔ جن کا بعد میں انتقال ہو گیا۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔ آمین۔ ان سے ہمارے اچھے مراسم تھے۔ ہم ان سے اپنی کتابیں چھپواتے رہے ہیں۔ ایک روز انھوں نے ہمیں ایک کتاب دی جس کا نام تھا ’’کاروان سلف‘‘۔ کتاب تھماتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ایک مولانا صاحب کی کتاب ہے جو آپ ہی کے علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کا نام مولانا عبد الرؤف خاں ندوی ہے۔ انھوں نے یہ کتاب آپ کو دینے کے لیے کہا ہے۔ میں نے اس کی ورق گردانی کی تو اندازہ ہوا کہ وہ اہل حدیث علما اور قلم کاروں کے تذکرے کا ایک سلسلہ ہے۔ وہ کاروان سلف کی تیسری جلد تھی۔ میں اس وقت تک مولانا ندوی صاحب سے واقف نہیں تھا۔ میں نے اگلے روز ان سے فون پر رابطہ قائم کیا تو تادیر گفتگو ہوتی رہی۔ میں اس پہلی برقی گفتگو ہی میں ان کے خلوص و محبت کا گرویدہ ہو گیا۔ اس کے بعد ان سے برابر رابطہ قائم رہا۔ وہ کسی مضمون کے بارے میں استفسار کرتے اور مجھ سے جو کچھ ممکن ہوتا میں مدد کرتا۔ بعد میں مختلف شخصیات پر میرے کئی مضامین انھوں نے کاروان سلف میں شائع کیے۔ یہاں تک کہ انھوں نے فرمائش کرکے مجھ سے ایک مختصر خود نوشت بھی لکھوا لی جو انھوں نے کاروان سلف میں شائع کی۔ اسے بعد ازاں کئی مؤقر مجلات نے شائع کیا۔ جن میں دوحہ/دہلی کا ضخیم مجلہ ’’دستاویز‘‘ بھی شامل ہے۔ جس کے مدیر اعلیٰ معروف عالمی شاعر عزیز نبیل ہیں (اسے مکمل کرکے کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ البتہ خود نوشت کا ایک حصہ ’’میرا صحافتی سفر‘‘ کے عنوان سے جلد ہی اشاعت پذیر ہونے والا ہے)۔ اس کے علاوہ مولانا ندوی صاحب نے میرے اوپر لکھے گئے ایک مضمون کو بھی کاروان سلف میں شائع کیا۔ مجھے بھی کسی اہل حدیث شخصیت کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنی ہوتی ہیں تو میں ان سے رابطہ قائم کرتا ہوں اور وہ بس تھوڑی ہی دیر میں اپنے صاحب زادے ظفر محمدی کے توسط سے تفصیلات فراہم کر دیتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب بھی کاروان سلف کی نئی جلد آتی ہے وہ اس کے چند نسخے از راہ عنایت فوراً میرے پاس بھجوا دیتے ہیں۔ میں ایک دو نسخے خود رکھ لیتا اور باقی اہل علم کو ہدیہ کر دیتا ہوں۔
اس وقت تک سے لے کر اب تک طویل دس برس گزر گئے۔ دریائے گنگا و جمنا میں جانے کتنا پانی بہہ گیا۔ لیکن ملاقات نہ لکھی تھی نہ ہوئی۔ اس بار کے سفر کے دوران میں نے پلاننگ کے تحت اپنے علاقے کے کئی مدارس کو دیکھا۔ لیکن اس وقت تک میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اسی سفر میں ان سے ملاقات ہو جائے گی۔ لیکن بہرحال ایک روز ہم نے پلان بنا لیا۔ ہم اپنے گاؤں کے ’’مدرسہ مدینۃ العلوم‘‘ کے ناظم مولانا محمد علی فیضی، ’’مدرسہ کعب بن مالک‘‘ بلوا مشرا، سانتھا بازار کے استاد مولانا عبد اللہ فیضی اور اپنے بیٹے ڈاکٹر سلمان فیصل کے ہمراہ تلسی پور کے لیے نکل پڑے۔ مولانا بذریعہ فون بار بار پوچھتے رہے کہ ہم کہاں تک پہنچے۔ بہرحال ہم لوگ تقریباً دس بجے صبح ان کے دولت کدے پر حاضر ہو گئے۔ ہم جب ان کے دروازے پر پہنچے تو وہاں دو تین دیگر علما کو دیکھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک مولانا منظور عالم عبد المعبود سلفی ہیں جو کہ جامعہ ریاض العلوم دہلی میں استاد ہیں۔ انھوں نے وہاں سے رخصت ہوتے وقت اپنی کتاب ’’رفوالخرقہ بشرف الحرفہ‘‘ جو کہ صنعت و حرفت کے موضوع پر تقریباً ایک صدی قبل علامہ نواب سید صدیق حسن خاں بخاری قنوجی کا تحریر کردہ رسالہ ہے، ہمیں عنایت کی۔ جس کی تحقیق و تعلیق منظور عالم عبد المعبود سلفی نے کی ہے۔ جبکہ تقدیم ڈاکٹر بہاء الدین محمد سلیمان اظہر نے لکھی ہے۔
ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور
مولانا عبد الرؤف ندوی اور ظفر محمدی نے جس خلوص، اپنائیت اور محبت کا ثبوت دیا اس نے مولانا سے ہماری عقیدت کو دو چند کر دیا۔ سب سے پہلے تومولانا ندوی نے مولانا منظور عالم وغیرہ کی خواہش پر ان کی لائبریری کے لیے اپنی کئی تصنیفات پیش کیں جن میں کاروان سلف کی چوتھی جلد سے لے کر آخری یعنی بارہویں جلد کے نسخے شامل تھے۔ لگے ہاتھوں انھوں نے مدرسہ مدینۃ العلوم اور مدرسہ کعب بن مالک کی لائبریریوں کے لیے بھی اتنی کتابیں عنایت کیں۔ جن میں ایک بہت معلوماتی کتاب ’’تاریخ اہل حدیث بلرام پور یوپی‘‘ بھی شامل تھی۔ جو لوگ بھی ان سے ملنے جاتے ہیں وہ ان کو کتابوں کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ اہل علم کے لیے اس سے اچھا تحفہ ہو بھی نہیں سکتا۔ اس موقع پر مولانا ندوی نے ضلعی جمعیت بلرام پور کے ناظم مولانا زبیر احمد عبد المعبود مدنی سے بذریعہ فون گفتگو کرائی۔ اس روز لکھنؤ میں جمعیت اہل حدیث کی ایک میٹنگ تھی جس میں وہ اور دیگر اہل حدیث علما تشریف لے گئے تھے جس کی وجہ سے ان لوگوں سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ قابل ذکر ہے کہ ہمارے بزرگ دوست شیخ صلاح الدین مقبول احمد ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور کے امیر ہیں۔ انھیں آٹھ مارچ 2007 کو بااتفاق رائے امیرجماعت کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ آج تک اس منصب پر فائز ہیں۔ جبکہ دو مئی 2015 کو مولانا زبیر احمد عبد المعبود مدنی کو اتفاق رائے سے ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا اور وہ بھی تاحال اس منصب پر فائز ہیں۔ ہم لوگ ظہر کے وقت مقامی مسجد میں واقع ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور کے دفتر بھی گئے۔ اس موقع پر مسجد کے امام مولانا عبد الکریم فیضی بھی تشریف لے آئے۔ انھوں نے بعد نماز ظہر ہم تمام لوگوں کو ضلعی جمعیت کی طرف سے شائع کتابوں کا ایک ایک سیٹ پیش کیا۔ جن میں نماز نبوی، اسلامی عقیدہ کے چند اہم مسائل، آپ اپنی مفید عمر کیسے بڑھائیں، شادی کی رات اور عورتوں کے خصوصی مسائل قابل ذکر ہیں۔
تلسی پور اہل حدیث افراد کی ایک قدیم آبادی ہے۔ ہم لوگ بچپن سے ہی اس کے بارے میں سنتے آئے تھے۔ یہاں غیور اہل حدیث افراد کی کثیر تعداد موجود ہے۔ مولانا عبد الرؤف ندوی کی تالیف ’’تاریخ اہل حدیث بلرام پور یوپی‘‘ کی تفصیلات کے مطابق 1969 میں جب مولانا ندوی نے تلسی پور کو اپنی مستقل رہائش بنائی تو اس وقت وہاں صرف تین مسجدیں تھیں۔ لیکن آبادی میں اضافے کے نتیجے میں مسجدوں کی تعداد بتدریج بڑھتی گئی اور اس وقت چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد 20 ہے جن میں 11 اہل حدیث مساجد ہیں۔ ان کے علاوہ دیوبندیوں کی دو اور بریلویوں کی سات مساجد ہیں۔ 1969 میں تلسی پورمیں اہل حدیث افراد کی صرف ایک مسجد تھی جو پرانے بازار میں تھی۔ البتہ بریلویوں کی دو مسجدیں تھیں۔تلسی پور میں پانچ اہل حدیث تعلیمی ادارے بھی ہیں۔ (واضح رہے کہ یہ کتاب 2021 میں شائع ہوئی ہے جو کہ بلرام پور کی تاریخ اہل حدیث پر ایک معلوماتی کتاب ہے)۔ قابل ذکر ہے کہ تلسی پور میں پانچ گھنٹے کے قیام کے دوران ظفر محمدی صاحب مسلسل ہم لوگوں کے ساتھ رہے جس کی وجہ سے ہمیں کافی سہولت اور آرام ملا۔ مولانا ندوی اور ان کے فرزند نے ہمارے ساتھ جو محبت آمیز سلوک کیا ہم اس کے لیے صمیم قلب سے ان کے شکر گزار ہیں۔ اللہ تعالی مولانا کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر دے۔
جامہ خیر العلوم ڈومریاگنج
دو جون کو ہم نے جامعہ خیر العلوم ڈومریاگنج، مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر کا ایک سفر کیا تھا۔ ہمارے ہمراہ مولانا محمد علی فیضی، برادرم محمد اسلم اور حبیب الرحمان (سابق پردھان کرنجوت) بھی تھے۔ ہم نے وہ سفر یا دورہ علاقے کی بعض معزز شخصیات کی فرمائش اور خود اپنی خواہش پر کیا تھا۔ تاہم سفر کا وہ مقصد جو ہمارا اور معزز شخصیات کے پیش نظر تھا مکمل طور پر پورا نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود اس سفر میں بہت اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ خیر العلوم سے سراج العلوم تک کے راستے میں کئی دیگر ادارے بھی ہیں۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ جاننا بھی تھا کہ سرحدی علاقوں میں واقع ان مدارس کا معیار تعلیم کیا ہے، ان کا نصاب کیا ہے اور وہاں کے فارغین کیسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا مقصد یہ جاننا بھی تھا کہ کیا یہ ادارے غیر قانونی ہیں اور کیا ان کا کسی بھی قسم کا تعلق انتہاپسند تنظیموں سے ہے۔ مزید برآں یہ کہ ان اداروں کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں اور ملنے والا فنڈ کہاں کہاں استعمال ہوتا ہے۔ اترپردیش کی حکومت کو سرحدی علاقوں میں واقع ان اداروں کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بار باران کی جانچ کرواتی رہتی ہے۔ بہرحال ہم نے اپنے اس سفر میں ان مدارس کے ذمہ داروں سے گفتگو کی اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں پر شک کرنا محض بدگمانی اور شاید تعصب پر مبنی ہے۔ ورنہ ان کی تمام تر تعلیمی سرگرمیاں انتہائی شفاف اور سب کے لیے قابل رسائی ہیں۔
جامعہ خیر العلوم ڈومریاگنج میں ہماری ملاقات وکیل الجامعہ شیخ محمد ابراہیم مدنی، بزرگ عالم دین شیخ عبد الرحمن لیثی مدنی، شیخ فخر الدین ندوی، شیخ الجامعہ شیخ عبد الستار سراجی، شیخ سعد مدنی، جناب محمد افضال اور مولانا معین الدین سے ہوئی۔ جناب محمد افضال اس ادارے کی نشاۃ ثانیہ کے روح رواں ڈاکٹر عبد الباری مرحوم کے تیسرے فرزند ہیں جو کہ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد اس کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار ہیں۔ وہ انتہائی شریف النفس اور سنجیدہ شخص معلوم ہوئے۔ اس مختصر ملاقات میں اندازہ ہوا کہ وہ اپنے کام کے تئیں سنجیدہ ہیں۔ مندرجہ بالا شخصیات میں سے بیشتر ادارے میں استاد ہیں۔ جامعہ خیر العلوم کی تاسیس 1968 میں ہوئی تھی جو کہ وہاں کی اہم شاہراہ پر مغرب کی جانب واقع ہے۔ ایک عرصے کے بعد ملت کا درد رکھنے والے ایک مخلص انسان ڈاکٹر عبد الباری نے اس کی توسیع کی۔ تعلیمی سرگرمیوں کی جانب متوجہ ہونے سے قبل وہ ایک تجربہ کار ڈاکٹر کی حیثیت سے ڈومریاگنج اور قرب و جوار میں ایک مسیحا کے مانند معروف تھے۔ لیکن جب انھوں نے علاقے میں تعلیم کی ضرورت کو محسوس کیا تو ادارے قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ خیر العلوم کے شیخ الجامعہ مولانا عبد الستار سراجی نے ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد اپریل 2021 میں اپنے ایک مضمون میں انھیں ملت کے لیے فکرمند ایک عظیم انسان قرار دیا ہے۔ ان کا انتقال جون 2020 میں ہوا تھا۔ ان کے مطابق ڈومریاگنج میں واقع شعبۂ مکتب، شعبۂ تحفیظ القرآن، کلیۃ الطیبات، دار الایتام، جامعہ اسلامیہ خیر العلوم اور خیر ٹیکنیکل سینٹر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سے ایک اردو ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ بھی شائع ہوتا ہے۔ یہاں یتیموں اور بیوگان کے لیے ادارے ہیں۔ جبکہ خیر ٹیکنیکل سینٹر عصری تکنیکی علوم فراہم کرتا ہے۔ ان اداروں کے ذمہ داروں سے ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہاں سے فارغ التحصیل طلبہ ملک کے مختلف میدانوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں تفصیلی تبادلہ خیال میں یہ بھی اندازہ ہوا کہ یہاں کے اداروں کے بارے میں کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار ان اداروں کو بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس سے قبل ہم نے 1975 کے آس پاس خیرالعلوم کا ایک سفر کیا تھا۔ اس وقت ان اضافی اداروں کا کوئی وجود نہیں تھا۔
ڈومریاگنج میں مختلف مکاتب فکر جیسے سلفی، دیوبندی، بریلوی اور جماعت اسلامی کے ادارے شامل ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہاں کے لوگوں نے تعلیمی اداروں کا جال بچھا رکھا ہے۔ ان اداروں میں سب سے نمایاں مولانا عبد الواحد مدنی کے قائم کردہ ادارے ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے 1990 کے آس پاس ایک اسلامی سینٹر ’’المرکز الاسلامی‘‘ قائم کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے کافی جگہیں خریدیں اور ’’صفا ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی‘‘ قائم کی۔ جس کے تحت کئی ادارے جیسے کہ صفا شریعت کالج، صفا انٹر کالج، صفا جونئر ہائی اسکول، صفا ہائی اسکول، شعبۂ حفظ اور مکتب بھی چل رہے ہیں۔ صفا شریعت کالج میں ماڈرن انداز کی تعلیم ہوتی ہے جس میں ڈیجیٹل تعلیم بھی شامل ہے۔ ہمیں یہ تفصیلات علاقے کے معروف عالم دین اور مولانا عبد الواحد مدنی کے ساتھ ان تعلیمی سرگرمیوں میں شروع سے شامل رہنے والے اور وہاں حدیث اور تفسیر کے استاد مولانا ابوالعاص وحیدی نے فراہم کیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ صفا ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے تحت چلنے والے اداروں کا نصاب بالکل جدید طرز کا ہے جہاں انگریزی، عربی اور اردو سے اور ان زبانوں میں ترجمہ کرنے کا فن بھی سکھایا جاتا ہے۔ مولانا وحیدی کے مطابق ان اداروں کے فارغ التحصیل افراد مختلف شعبہ ہائے حیات میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایک شب میں تعمیر ہونے والی مسجد
ہمارا ننھا سا قافلہ ڈومریاگنج سے نکل کر اِٹوا بازار پہنچا۔ آج سے نصف صدی قبل اٹوا کی سڑک تقریباً غیر آباد تھی۔ لیکن نصف صدی کے اندر وہاں جتنی تعمیراتی و تجارتی ترقی ہوئی ہے وہ قابل رشک ہے۔ وہاں ملی جلی آبادی ہے۔ لہٰذا اس ترقی میں مسلمانوں اور ہندووں دونوں کی شمولیت ہے۔ بڑھنی کی طرف بڑھنے پر دائیں جانب سڑک کے کنارے دینی تعلیم کا ایک ادارہ ’’اتحاد ملت‘‘ واقع ہے۔ اس کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک خوبصورت مسجد ہے جو نہ تو بہت بڑی ہے اور نہ ہی بہت چھوٹی۔ ہم اس مسجد کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ وہ ایک ہی شب میں بن کر تیار ہو گئی تھی۔ ہمارے دل میں بارہا یہ خیال آتا رہا کہ گو کہ علاقے کے پچاس سال سے اوپر کے لوگ اس مسجد کی تعمیر کی کہانی سے واقف ہیں لیکن دوسرے علاقے کے لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔ لہٰذا ہم نے ضرورت محسوس کی کہ اخبار کے قارئین تک بھی یہ کہانی پہنچائی جائے۔ لیکن ہمیں ایسا کوئی معقول اور مستند شخص نہیں مل رہا تھا جو اس کی تاریخ پر روشنی ڈال سکے۔
لیکن اس بار کے سفر میں ہمیں ایسے مستند افراد مل گئے جو اس مسجد کی کہانی پر تفصیل سے روشنی ڈال سکتے تھے۔ اٹوا میں علاقے کے معروف شاعر جمال قدوسی ہم لوگوں کے منتظر تھے۔ انھوں نے مذکورہ مسجد کی تعمیر پر کچھ روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح اس کی تعمیر چوبیس گھنٹے میں مکمل ہو گئی تھی۔ لیکن ہمیں مزید تفصیل کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں ہماری رہنمائی پیرِ جواں دل و جواں ہمت شیخ شریف اللہ سلفی نے کی۔ وہ اسی علاقے کے ایک بزرگ اور معروف عالم دین ہیں۔ وہ جامعہ عالیہ مؤناتھ بھنجن کے سابق شیخ الجامعہ ہیں اور اس وقت ’’الفاروق انٹرکالج‘‘ کے شعبۂ نسواں ’’کلیہ حفصہ الاسلامیہ‘‘ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانا محمد علی فیضی کے فون پر وہ جمال قدوسی صاحب کی شاپ پر تشریف لے آئے۔ انھوں نے بتایا کہ اس مسجد کی تعمیر واقعی چوبیس گھنٹے کے اندر مکمل ہوئی تھی جو کہ علاقے کے مسلمانوں کے اسلامی جذبے کی گواہ ہے۔
مسجد کی جائے وقوع کچھ یوں ہے کہ وہاں ایک بڑا سا پوکھرا یا تالاب ہے۔ اس کے چاروں طرف ٹیلے نما مٹی ہے جسے مقامی زبان میں بھیٹا کہتے ہیں۔ جو غالباً تالاب کی کھدائی میں نکلنے والی مٹی سے بن گیا ہوگا۔ وہاں سے مشرق میں کچھ مسافت پر واقع مسلمانوں کی ایک آبادی مینا عیدگاہ میں ’’اتحاد قوم (نیا نام دار التوحید)‘‘ نامی تعلیمی ادارہ ہے۔ لیکن جب مغرب کی جانب سے دور دراز سے آنے والے طلبہ کو زیادہ پریشانی ہونے لگی تو علاقے کی چند بااثر مسلم شخصیات نے باہم مشورے سے تالاب کے مغربی بھیٹے پر ایک جھونپڑی ڈال کر مکتب قائم کیا اور اس کا نام ’’اتحاد ملت‘‘ رکھا۔ اتحاد قوم کے پہلے استاد میاں شوکت علی تھے اور وہی اتحاد ملت کے بھی پہلے استاد ہوئے۔ رفتہ رفتہ طلبہ اور اساتذہ کی تعداد بڑھنے لگی تو وہاں ایک مسجد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لہٰذا موضع مرغہوا کے مولانا حکیم جمیل احمد، مینا کے محمد عاقل عرف بدھو میاں اور مدھواپور کے دیوان حبیب اللہ نے ایک ٹیم بنا کر متعدد مسلم مواضعات کے با اثر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور مکتب کے برابر میں ایک مسجد کی تعمیر کرنے کا پلان بنایا۔ شیخ شریف اللہ کے مطابق یہ 1970 کا واقعہ ہے۔ جب وہاں کے غیر مسلموں کو اس کی بھنک لگی تو انھوں نے مسجد کی تعمیر کی مخالفت شروع کر دی۔ دراصل وہ زمین بنجر یعنی سرکاری ہے۔ لہٰذا ان کا کہنا تھا کہ بنجر زمین پر مدرسہ اور مسجد نہیں بن سکتے۔ لیکن علاقے کے مسلمانوں نے غالباً سوچا ہوگا کہ بنجر زمین عوامی ہوتی ہے لہٰذا وہاں مدرسہ اور مسجد کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ بہرحال اس معاملے پر ایک تنازع پیدا ہو گیا۔ وہاں کے غیر مسلموں نے پولیس سے رابطہ قائم کیا۔ مقامی تھانے کے غیر مسلم داروغہ سے مل کر انھوں نے کہا کہ ہم وہاں مسجد نہیں بننے دیں گے بلکہ ہم مندر بنائیں گے۔ داروغہ نے جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا، غیر مسلموں سے کہا کہ اگر ہم تم لوگوں کو مندر بنانے کی اجازت دے دیں تو تم لوگ کتنے وقت میں مندر بنا لوگے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں کم از کم ایک ہفتے کا وقت چاہیے ہوگا۔ داروغہ نے کہا کہ معاملہ بہت حساس اور نازک ہے، ہم مندر کی تعمیر کے لیے ایک ہفتے کا وقت نہیں دے سکتے۔ کیا تم لوگ ایک دن میں مندر بنا سکتے ہوں۔ غیر مسلموں نے انکار کیا۔ داروغہ نے کہا کہ چوبیس گھنٹے میں بنا سکتے ہو۔ انھوں نے کہا کہ نہیں چوبیس گھنٹے بھی ناکافی ہوں گے۔ ہمیں کم از کم ایک ہفتے کا وقت چاہیے۔ لیکن داروغہ نے ایک ہفتے کا وقت دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے مسلمانوں کو طلب کیا اور ان سے وہی سوال کیا جو اس نے غیر مسلموں سے کیا تھا۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہمیں مسجد کی تعمیر کے لیے صرف چوبیس گھنٹے کا وقت چاہیے۔
شیخ شریف اللہ کہتے ہیں کہ داروغہ نے غالباً یہ سوچ کر کہ چوبیس گھنٹے میں مسجد کیسے بن سکتی ہے، مسلمانوں کو اس کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں نے صبح کے وقت بنیاد کھود کر تعمیر کا کام شروع کر دیا۔ اس وقت تک فور وھیلر تو بہت دور کی بات ہے ٹو وھیلر بھی بہت کم تھے۔ آمد و رفت کا ذریعہ صرف سائیکل ہوا کرتی تھی۔ ادھر علاقے کے مسلم مواضعات میں اس کا اعلان کرا دیا گیا۔ جس مسلمان کو جو بھی ملتا اس سے اس مسجد کی تعمیر کا ذکر کرتا۔ لہٰذا لوگ جوق درجوق وہاں پہنچنے اور تعمیر کے کام میں ہاتھ بٹانے لگے۔ جس کسی مسلمان کا گھر بن رہا تھا وہ راج مستری، مزدور اور بلڈنگ مٹیریل سب لے کر وہاں پہنچا۔ غرضیکہ پورے علاقے کے مسلمانوں نے اپنی اپنی تعمیرات بند کرکے افراد اور تعمیری اشیا کے ساتھ وہاں پہنچنا اور اس میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ لوگ بغیر کچھ کھائے پئے چوبیس گھنٹے کام کرتے رہے اور بیس گھنٹے پورے ہوتے ہوتے شہتیر ڈال کر مسجد کی چھت مکمل کر دی گئی۔ مزید چار گھنٹے میں اس کی صفائی ستھرائی اور دوسرا کام کر لیا گیا۔ چوبیس گھنٹے مکمل ہوتے ہی مسلمانوں نے داروغہ سے ملاقات کی اور مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کی بات بتائی۔ شیخ شریف اللہ کے مطابق داروغہ کو یقین نہیں آیا۔ وہ موقعے کا معائنہ کرنے آیا اور جب اس نے مسجد کو دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ مولانا کے مطابق اس وقت تک لوگوں کا ذہن فرقہ واریت کے زہر سے آلودہ نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا داروغہ واپس چلا گیا۔ ممکن ہے کہ اس کو یقین نہ رہا ہو کہ مسلمان چوبیس گھنٹے میں مسجد بنا لیں گے۔ اگر وہ ایسا سمجھتا تو شاید اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اس واقعے نے پورے علاقے کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا۔ کچھ دنوں کے بعد مسجد کی تھوڑی سی توسیع ہوئی اور اسے دو منزلہ بنا دیا گیا۔ بعد میں غیر مسلموں نے مدرسہ اور مسجد سے بالکل متصل ایک چھوٹا سا مندر بنا لیا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے مندر کے پاس سے پانی تک اترنے کے لیے سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مندر ابھی چھوٹا ہے ممکن ہے رفتہ رفتہ اسے بڑا کر دیا جائے۔ البتہ مدرسہ کافی بڑا ہو گیا ہے اور تین اطراف سے تعمیرات کے ساتھ دو منزلہ کر دیا گیا ہے۔ وہیں تالاب اور مدرسہ کے درمیان اساتذہ و طلبہ کے لیے بڑی تعداد میں واش رومز کی تعمیر کی گئی تھی جسے انتظامیہ نے یہ کہہ کر منہدم کر دیا کہ وہاں بس اڈہ بنایا جائے گا۔ حالانکہ بظاہر وہاں بس اڈہ بنانے کی کوئی تک نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے یا تو مدرسے کے گیٹ سے اندر جایا جا سکتا ہے یا پھر سیڑھیوں کی طرف سے۔ ہم نے شیخ شریف اللہ سلفی کی روایت کی تصدیق کے لیے شیخ شبیر احمد مدنی منیجرندوۃ السنہ سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بھی وہی تفصیل بتائی جو شیخ شریف اللہ سلفی نے بتائی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کھانے کے نام پر ایک کھانچی (جھوا) میں بتاشے رکھے ہوئے تھے۔ وہی کھا کھا کر لوگ پانی پیتے اور کام پر لگ جاتے۔ ان کے مطابق ہم لوگ طالب علم تھے اور ہمارا کام سڑک پر گرائی جانے والی اشیا کو ڈھو ڈھو کر مسجد تک پہنچانا تھا۔ بہرحال اس طرح چوبیس گھنٹے میں مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ بلا شبہ یہ واقعہ علاقے کے مسلمانوں کے دینی جذبے کا غماز ہے۔ اس موقع پر شیخ شریف اللہ صاحب نے اپنی تین تصنیفات مسنون نماز، طالبان علوم نبوت کا مقام صفات اور ذمہ داریاں اور تربیت کے اسلامی اصول پیش کیں۔
ندوۃ السنہ اور سید سعید احسن عابدی
’’ندوۃ السنہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی‘‘ کے دفتر میں ہماری ملاقات ناظم شیخ شبیر احمد مدنی سے ہوئی۔ انھوں نے مختلف اداروں کے بارے میں کافی تفصیلات فراہم کیں۔ اس سوسائٹی کے تحت کئی تعلیمی ادارے چل رہے ہیں۔ جن میں جامعۃ الفاروق الاسلامیہ، الفاروق انٹر کالج، الفاروق پرائمری اسکول، الفاروق جونیئر ہائی اسکول اور کلیہ حفصہ الاسلامیہ قابل ذکر ہیں۔ اب ایک ڈگری کالج کھولنے کی بھی تیاری چل رہی ہے۔ ان اداروں کا نصاب اس انداز کا تیار کیا گیا ہے کہ وہاں سے فراغت کے بعد طلبہ مزید دینی یا پھر عصری تعلیم کی طرف جا سکتے ہیں۔ یعنی عصری تعلیم میں وہ انجینئر اور ڈاکٹر وغیرہ بھی بن سکتے ہیں۔ شیخ شبیر احمد بڑی محبت و اپنائیت سے ملے۔ دو سال قبل ہونے والے علاقے کے ایک سفرمیں ہم ان کے دولت کدے پر ان کی مہمان نوازی سے مستفید ہو چکے تھے۔
اس سفر کی ایک خاص بات ریڈیو قاہرہ اور پھر ریڈیو جدہ میں نصف صدی سے زائد عرصے تک خدمات انجام دینے والے سینئر براڈکاسٹر اور اناونسر سید سعید احسن عابدی سے ملاقات رہی۔ وہ جدہ سے واپسی کے بعد اسی کیمپس میں مقیم ہیں۔ چونکہ میرا بھی تعلق تقریباً تیس سال سے ریڈیو سے ہے اس لیے اپنے کسی سینئر اور بزرگ ہم پیشہ سے ملنا میرے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ میں 1995 سے تقریباً 2025 تک آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس، اردو مجلس، نیشنل چینل اور دیگر اسٹیشنوں سے ایک ٹاکر ، مترجم اور مبصر کی حیثیت سے وابستہ رہا اور مارچ 2002 سے مارچ 2025 تک وائس آف امریکہ واشنگٹن سے ایک رپورٹر کی حیثیت سے باضابطہ وابستہ رہا۔ وائس آف امریکہ حکومت امریکہ کے فنڈ سے چلنے والا میڈیا ادارہ ہے جسے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی سال 15 مارچ کو ایک ایکزکٹیو آرڈر جاری کرکے بند کر دیا۔ اس آرڈر کا اثر صرف اردو نشریات پر نہیں پڑا بلکہ اس کی تمام 45 زبانوں کی نشریات پر بھی پڑا اور تمام نشریات بیک جنبش قلم بند کر دی گئیں۔ اس آرڈر کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ ریڈیو نشریات سے ایک عرصے تک وابستہ رہنے اور متعدد سینئر براڈکاسٹر اور پروگرام ایکزکٹیو کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ریڈیو سے جو جذباتی وابستگی قائم ہوئی اس کے اثرات تازندگی باقی رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی سینئر اور بزرگ براڈکاسٹر سے ملاقات ہوتی ہے تو یک گونہ شادمانی کا احساس ہوتا ہے۔
ریڈیو کی باتیں اب خواب و خیال کی باتیں ہوتی جا رہی ہیں۔ اب پوری دنیا میں ریڈیو نشریات یکے بعد دیگرے بند ہو رہی ہیں۔پہلے الیکٹرانک میڈیا اور اب سوشل میڈیا کے انقلاب نے ریڈیو نشریات کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن چونکہ تبدیلی قانون فطرت ہے، جو آیا ہے اسے جانا ہے اور ہر عروجے را زوال است، لہٰذا ریڈیو کا دور بھی اب رفتہ رفتہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب آنے والی نسلوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ ریڈیو پوری دنیا میں خبر رسانی، مواصلات، اطلاعات اور ایجوکیٹ کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو زبان و بیان کی درستی کا بھی پلیٹ فارم تھا۔ لیکن اب یہ تمام باتیں افسانہ و افسوں بن جانے والی ہیں۔ اس لیے نئی نسل کو چاہیے کہ وہ ریڈیو میں خدمات انجام دینے والی شخصیات سے ملیں اور ان سے ریڈیو کی کہانیاں سنیں۔ اپنی صحافتی زندگی کے چالیس برسوں میں ریڈیو سے ایک چوتھائی صدی تک وابستہ رہنے کے باوجود جہاں بھی کسی سینئر براڈکاسٹر سے ملاقات کا موقع ملتا ہے تو ہم اس سے ریڈیو کی داستان سننے اور بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سید سعید احسن عابدی سے ملاقات کا ایک مقصد جہاں اپنے علاقے کی ایک ذی علم شخصیت سے ملنا تھا وہیں دوسرا مقصد ریڈیو جدہ میں ان کے تجربات کو سننا اور ان سے استفادہ کرنا بھی تھا۔ لیکن وقت کی تنگ دامانی نے بہت کچھ سننے اور جاننے کا موقع نہیں دیا۔
ہم سید سعید احسن عابدی کی شخصیت اور ان کی خدمات سے ناواقف ہی رہتے اگر ہم نے تفسیر احسن البیان پر ان کا ایک تنقیدی مضمون اور ’’کاروان سلف‘‘ کی 2022 میں شائع ہونے والی نویں جلد میں ان کی خودنوشت نہ پڑھی ہوتی۔ بالخصوص خودنوشت پڑھنے کے بعد سے ہی ان سے ملاقات کی ہماری خواہش رہی ہے۔ دو سال قبل عید الاضحیٰ کے موقع پر اس علاقے کے سفر کے دوران بھی ان سے ملاقات کی کوشش کی تھی جو کسی وجہ سے ناکام رہی۔ لیکن اس بار جب ہم الفاورق پہنچے اور ملاقات کا گمنام پیغام بھیجا تو انھوں نے فوری طور پر ملنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ علیک سلیک کے بعد جب گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ وہ خاکسار سے حال ہی میں غائبانہ طور پر واقف ہوئے ہیں۔ بہرحال ان سے کافی تبادلہ خیال ہوا جس کے دوران ریڈیو قاہرہ اور ریڈیو جدہ میں ان کے تجربات سے واقف ہونے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے سخت اقامتی قوانین سے متعلق معلومات میں اضافہ بھی ہوا۔ (ان کے بارے میں مزید معلومات کے لیے 2022 میں شائع ہونے والی ان کی خود نوشت ’’میرے احوال واقعی‘‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ یہ خودنوشت کاروان سلف کی نویں جلد میں بھی شائع ہو چکی ہے)۔ انھوں نے اس کا ایک نسخہ ہمیں عنایت کیا۔ ان پر ہم نے ایک تفصیلی مضمون قلم بند کیا جو متعدد اخباروں میں شائع ہوا۔
اسی راستے سے نیپال کے سرحدی قصبہ کرشنا نگر عرف جھنڈا نگر جاتے ہوئے علاقے کی معروف آبادی دودھونیاں پڑتی ہے جو کہ مجاہد آزادی اور مفسر قرآن حضرت مولانا عبد القیوم رحمانی کا گاؤں ہے۔ یہ موضع مولانا رحمانی کی ذات کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈا نگر
ادھر ہمارا انتظار کرشنا نگر (جھنڈا نگر) میں واقع تعلیمی ادارہ ’’مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ‘‘ کے ناظم اعلیٰ مولانا عبد العظیم مدنی کر رہے تھے۔ ہم لوگ ہند نیپال سرحد پر ایک جگہ گاڑی پارک کرکے نیپال کی سرحد میں داخل ہونے لگے توجب ہم اپنے چند رفقاء کے ہمراہ ایک داخلی مقام سے ہندوستان کے قصبہ بڑھنی سے نیپال کے قصبہ جھنڈا نگر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے تو وہاں تعینات ایک ہندوستانی سرحدی محافظ نے تحکمانہ انداز میں کہا کہاں جا رہے ہو؟ اسے بتایا گیا کہ ہم مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جا رہے ہیں تو اس نے آدھار کارڈ مانگا۔ جو کسی کے پاس تھا اور کسی کے پاس نہیں تھا۔ ا س نے سخت لہجے میں یہ کہہ کر جانے کی اجازت دی کہ دوسرے ملک میں جا رہے ہو اور آدھار کارڈ بھی نہیں رکھتے۔
دونوں ملکوں کے درمیان واقع سرحد پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اطراف کے مقامی افراد آزادانہ آمد و رفت رکھتے ہیں۔ سرحدی محافظ سب کو پہچانتے ہیں۔ لہٰذا وہ صرف نئے لوگوں سے سوال کرتے ہیں۔ ہمیں مولانا عبد العظیم مدنی نے بتایا کہ جب خدیجۃ الکبری میں دوپہر کو کلاسز ختم ہونے کے بعد تعطیل ہوتی ہے اور بڑھنی کی طالبات برقعے میں سرحد عبور کرتی ہیں تو اسمگلنگ میں ملوث کچھ غیر مسلم خواتین بھی برقعہ پوش بن کر سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسے مواقع پر سرحدی محافظوں کی نگاہیں طالبات کے پیروں کی جانب ہوتی ہیں اور غیر طالبات کی، کچھ تو ہندووں کی ایک مذہبی شناخت کے طور پر پیروں میں لگے رنگ جسے مہاور کہتے ہیں، دیکھ کر شناخت کر لی جاتی ہے۔ تاہم کچھ نکل آنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔ ’’مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ‘‘ 1988 میں ہند و نیپال کے معروف عالم دین مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈانگری نے قائم کیا تھا۔ ان کا انتقال 22 دسمبر 2015 کو ہو گیا۔ یہ ملک نیپال کی پہلی اقامتی نسواں درسگاہ ہے۔ اس کے مہتمم ڈاکٹر سعید احمد اثری اور مشرف معروف شاعر زاہد آزاد جھنڈا نگری ہیں۔ اس ادارے کے مینجمنٹ کی ذمہ داری مولانا عبد اللہ مدنی کے بڑے فرزندعبد السلام کے سر ہے۔ اس وقت اس کے ہاسٹل میں تین سو طالبات ہیں۔ جبکہ دو سو طالبات مقامی ہیں۔ اس میں 25 معلمین و معلمات تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس ادارے سے نیپال کا سب سے قدیم اردو ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ بلا ناغہ شائع ہو رہا ہے۔ اس کی اشاعت کے 37 سال مکمل ہو گئے ہیں اور اب اس ماہنامہ کی اشاعت 38 ویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔ راقم الحروف بھی اس کی مجلس مشاورت میں شامل ہے۔ اس ماہنامے نے ملک نیپال میں جو کہ جمہوریت کی آمد سے قبل دنیا کا واحد ہندو ملک تھا، علم کی شمع روشن کرنے اور اردو زبان و ادب کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا عبد العظیم مدنی نے رسالہ نور توحید کا اپریل 2025 کا شمارہ دیا ۔ مولانا عبد اللہ مدنی کے گھر ظہرانے کا انتظام تھا۔ ان کے فرزند عبد السلام نے خاطر وتواضع میں کوئی کمی نہیں کی۔ مولانا عبد اللہ مدنی سے ہمارا دیرینہ تعلق رہا ہے۔ وہ اپنے ادارے میں کوئی نہ کوئی سمینار یا دینی جلسہ سال بہ سال منعقد کرتے رہے ہیں۔ یہ ان کی محبت تھی کہ وہ ہر پروگرام میں ہمیں مدعو کرتے اور وہاں کی حاضری سے ہمیں جو خوشی اور طمانیت ملتی وہ ناقابل بیان ہے۔ ان کے انتقال کے بعد بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم وہاں حاضری دیں۔ مولانا عبد العظیم مدنی اور ان کے رفقائے کار بھی ہم لوگوں کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ انھیں بھی وہاں ہمارے پہنچنے پر وہی خوشی حاصل ہوتی ہے جو ہمیں ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے جس طرح مولانا عبد اللہ مدنی کے انتقال کے بعد بھی تعلقات کو استوار رکھا وہ ہم لوگوں کے لیے قیمتی اثاثہ ہے۔
جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر
ہمارا انتظار ملک نیپال کی ایک قدیم درس گاہ ’’جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر السلفیہ‘‘ میں جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے ناظم شیخ وصی اللہ عبد الحکیم مدنی حفظہ اللہ بھی کر رہے تھے۔ ہم پہلے ان سے واقف نہیں تھے۔ گزشتہ سال عید الاضحیٰ کے موقع پر جب ہم اپنے وطن گئے تو ایک روز ان کا فون آیا۔ انھوں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کی جانب سے مولانا محمد رئیس ندوی (رئیس الاحرار ندوی) پر ایک کتاب شائع ہونے والی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس میں ہمارا بھی ایک مضمون ہو۔ 2011 میں ڈومریا گنج میں مولانا پر ایک سمینار منعقد ہوا تھا۔ سمینار کے مقالے کتابی صورت میں شائع نہیں ہو سکے تھے۔ اب اسی کو شائع کرنے کی تیاری ہے جس میں سمینار کے مقالوں کے ساتھ کچھ نئے مضامین بھی ہوں گے۔ جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے امیر شیخ محمد ابراہیم مدنی حفظہ اللہ نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کتاب کے لیے ہم ایک مضمون لکھیں۔ بہرحال ہم نے مولانا کا ایک قلمی خاکہ لکھ کر دے دیا تھا جو کتاب میں شامل ہے۔ اس کے بعد شیخ وصی اللہ عبد الحکیم مدنی اور شیخ محمد ابراہیم مدنی صاحبان سے ہمارے کچھ روابط قائم ہوئے۔ جب وہ کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آئی تو ہم نے اس پر ایک تبصرہ لکھا جو کہ متعدد اخبارات و رسائل میں شائع ہوا اور پورے ملک میں پڑھا گیا۔
شیخ وصی اللہ عبدالحکیم مدنی ہمیں لینے خدیجۃ الکبریٰ پہنچ گئے۔ جب ہم ان کے ہمراہ جامعہ سراج العلوم پہنچے تو مولانا سعود اختر سلفی، مولانا محمد سعد، مولانا شفیع اللہ مدنی، مولانا محبوب عالم سلفی، ماسٹر عبد الحسیب اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔ اس ادارے کے تحت طالبات کا ایک ادارہ اور دیگر ادارے بھی چل رہے ہیں۔ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کی تاریخ بڑی حوصلہ بخش ہے۔ اس کو ملک نیپال کے موضع کدربٹوا کے ایک معزز شخص جناب نعمت اللہ صاحب نے 1914 میں قائم کیا تھا۔ انھوں نے اپنی پانچ سو بیگھہ زمین اس ادارے کو وقف کر دی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنے ایک فرزند عبد الرؤف کو بھی ادارے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہی عبد الرؤف آگے چل کر خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔ وہ رابطہ عالم اسلامی کے تاحیات ممبر رہے۔ وہ نیپال میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے بانی صدر تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اس ادارے میں لگا دی اور اپنی کوششوں سے نہ صرف ملک نیپال بلکہ ہندوستان میں بھی علم کا اجالا پھیلایا۔ 1910 میں ان کی پیدائش ہوئی اور انتقال نومبر 1999 میں ہوا۔ ان کے ہزاروں شاگرد ہند و نیپال اور دیگر ملکوں کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور جامعات میں تدریسی و علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانا عبد الرؤف رحمانی کے بھتیجے مولانا شمیم احم دندوی حفظہ اللہ اب اس تاریخی ادارے کے ناظم اعلیٰ اور یہیں سے نکلنے والے اردو ماہنامہ السراج کے مدیر مسؤل ہیں۔ مولانا عبد الرؤف ندوی نے ’’کاروان سلف‘‘ میں مولانا عبد الرؤف رحمانی اور ان کے والد کے بارے میں تفصیلی مضامین شائع کیے ہیں۔ ماہنامہ ’’السراج‘‘ 31 برسوں سے شائع ہو رہا ہے۔ اس مجلے نے بھی ملک نیپال میں کافی علمی و ادبی خدمات انجام دی ہیں۔ شیخ وصی اللہ عبد الحکیم نے ماہنامہ السراج کا خصوصی شمارہ دیا جو کہ مولانا فضل حق مدنی مبارکپوری کی یاد میں ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر بدر الزماں محمد شفیع نیپالی کی تالیف ’’علماء اہل حدیث بستی و گونڈہ‘‘ بھی عنایت کی۔ یہ کتاب ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر نے شائع کی ہے۔اس کتاب میں ایک سو علماء کے بارے میں تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
بعد میں جب مولانا شمیم احمد ندوی کو میرے سفر کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے بذریعہ فون رابطہ قائم کیا اور اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ اگر انھیں علم ہوا ہوتا تو وہ بھی وہاں موجود ہوتے۔ تاہم انھوں نے مجھ سے وعدہ لے لیا ہے کہ میں اگلے سفر کا منصوبہ بناؤں تو انھیں باخبر کروں۔ میں جامعہ سراج العلوم کے تحت چلنے والے دیگر ادارے بھی دیکھنا چاہتا تھا لیکن وقت کی تنگ دامانی نے ان اداروں کی زیارت سے محروم رکھا۔ مولانا شمیم احمد ندوی ہمارے کرم فرما ہیں۔ ان سے کئی برس سے بذریعہ فون رابطہ استوار ہے۔ میں نے ندوۃ العلما لکھنؤ کے سابق مہتمم مولانا رابع حسنی ندوی مرحوم کا ایک خاکہ لکھا تھا جو انھیں بہت پسند آیا تھا۔ اس کے بعد ہی ان سے رابطہ قائم ہوا۔ میں ان کے خلوص و محبت کا گرویدہ ہوں۔ ہمارے والد حضرت مولانا حامدالانصاری انجم نے اس ادارے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ انھوں نے اپنی خودنوشت سوانح ’’مختصر داستان حیات‘‘ میں لکھا ہے کہ تعلیمی سلسلے کے دوران وہ ایک سال کے لیے سراج العلوم بھی گئے تھے۔ یہ خودنوشت میری مرتب کردہ کتاب ’’نقوش انجم‘‘ میں شامل ہے۔ اسے مولانا محمد مستقیم سلفی نے ’’ادارہ البحوث الاسلامیہ بالجامعہ السلفیہ بنارس ہند‘‘ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ضخیم تصنیف ’’علمائے اہل حدیث ہند اور ان کی تصنیفی خدمات‘‘ کی جلد اول میں شامل کیا ہے۔فراغت کے کچھ دنوں کے بعد جب ہمارے والد خطابت کے میدان میں سرگرم ہو گئے تو مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری سے ان کے قریبی مراسم قائم ہوئے۔ وہ مولانا رحمانی کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کی ایک خاص عادت یہ تھی کہ اگر تقریر کرنے یا نعت پڑھنے کا ان کا موڈ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت ان سے یہ کام نہیں کرا سکتی تھی۔ ایسے مواقع پر اگر مولانا عبدالرؤف رحمانی بھی ہوتے تو منتظمین ان سے سفارش کرواتے اور والد صاحب کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی ان کا حکم نہیں ٹالا۔ مولانا عبد الرؤف ندوی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ہمارے بچپن میں ہمارے گاؤں میں منعقد ہونے والے ایک دینی جلسے میں مولانا عبدالرؤف رحمانی بھی تشریف لائے تھے اور انھوں نے ایک یادگار تقریر فرمائی تھی۔ ان کی تقریر کا ہمارے گاؤں میں ایک طویل عرصے تک چرچا رہا۔
خالد ملی انٹرمیڈیٹ کالج پرتاول
اسی سفر میں 20 جون کو خالد ملی انٹر میڈئیٹ کالج تعلیم آباد، کوٹوا، پڑتاول بازار ضلع مہراج گنج جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ اس بار بھی ہمارے ساتھ مولانا محمد علی فیضی اور مولانا عبد اللہ فیضی تھے۔ ان کے علاوہ کچھ دیگر احباب بھی تھے۔ ہم لوگ مولانا افضل ندوی صاحب کے مہمان ہوئے۔ اس کالج میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کا بھی انٹر کالج ہے۔ اب ڈگری کالج کھولنے کی بھی تیاری چل رہی ہے۔ اس ادارے کا سنگ بنیاد ہمارے والد نے 1994 میں رکھا تھا۔ یہ ادارہ ’’الہلال فاؤنڈیشن گورکھپور‘‘ کے تحت چل رہا ہے۔ فاؤنڈیشن کے ذمہ دار مولانا عزیز عمر سلفی (مدیر نوائے اسلام)، مولانا افضل ندوی اور مولانا عبدالواجد فیضی صاحبان ہیں۔ ہم لوگوں نے مولانا افضل ندوی کے گاؤں ترکولوا کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ وہاں ہمارے والد کے کئی مداح ملے جنھوں نے ملاقات ہونے پر بے انتہا خوشی کا مظاہرہ کیا۔ جن میں مولانا عبدالکریم فیضی قابل ذکر ہیں۔ ہمیں بھی ان لوگوں سے مل کر بہت اچھا لگا۔ مولانا افضل ندوی نے واقعتاً میزبانی کا حق ادا کر دیا۔ اس کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ مولانا عزیز عمر سلفی بھی وہاں تشریف لانے والے تھے لیکن بعض مصروفیات کی وجہ سے وہ نہیں پہنچ سکے۔ بہرحال خالد ملی انٹرکالج کو اندر سے دیکھنے کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ حالانکہ اس وقت کالج میں تعطیل چل رہی تھی لیکن اساتذہ آنے لگے تھے۔
مرکز السنہ گوئٹھہا
ہمارے گاؤں لوہرسن بازار سے تقریباً چھ سات کلومیٹر کی مسافت پر ایک جگہ کا نام گوئٹھہا بازار ہے جو کہ مسلم اکثریتی آبادی ہے۔ وہاں لڑکیوں کا ایک اہل حدیث ادارہ ’’مرکز السنہ‘‘ چل رہا ہے جو کہ شیخ عبد الباری فتح اللہ صاحب کے عزیز مولانا عبد الحق جامعی چلا رہے ہیں۔ وہاں ابتدائی درجات سے لے کر عا لمیت تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ ایک روز مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب نے بذریعہ فون بتایا کہ پانچ جون کو اس ادارے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر ان کا ایک محاضرہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی اس میں شریک ہوں۔ محاضرے سے ایک روز قبل مولانا عبد الحق نے ہم سے رابطہ قائم کیا اور اس میں حاضر ہونے کو کہا۔ وہ پروگرام کے روز ہمیں لینے بھی آگئے۔ بہرحال ہم لوگ ان کے ادارے میں گئے۔ پروگرام میں طالبات نے عربی، اردو، انگریزی اور ہندی میں اپنی تقریروں کے شاندار نمونے پیش کیے۔ مولانا وحیدی صاحب نے محاضرہ پیش کیا اور طالبات سے کچھ سوالات بھی کیے۔ جن کا طالبات نے تشفی بخش جواب دیا۔ طالبات کی کارکردگی سے اندازہ ہوا کہ اس کے معیار تعلیم کے بارے میں جو کچھ سنا گیا تھا وہ درست تھا۔ (مذکورہ سفر کا یہ آخری پڑاؤ تھا۔ اس کے بعد ہم دہلی لوٹ آئے۔)
دارالعلوم محمدیہ امروڈوبھا
حسن اتفاق کہ جلد ہی ایک اور سفر درپیش ہو گیا۔ لہٰذا اس بار بھی ہم نے کچھ اہل حدیث اداروں کو دیکھنے کا ارادہ کیا۔ سب سے پہلے ’’دارالعلوم محمدیہ‘‘ لڈوا مہوا امرڈوبھا ضلع سنت کبیر کے نام قرعۂ فال نکلا۔ ادارے کے صدر مدرس مولانا آفاق احمد سلفی جب بھی دہلی آتے ہیں تو ان کا اصرار ہوتا ہے کہ ہم اگلی با رجب بھی وطن کی طرف جائیں تو ان کے ادارے میں بھی حاضری دیں۔ اس ادارے میں ہماری سابقہ حاضری کو ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لیے ہماری بھی خواہش رہی ہے کہ ہم وہاں ضرور جائیں۔ لہٰذا 19 اگست کو ہم مولانا محمد علی فیضی کے ہمراہ وہاں گئے۔ مولانا آفاق احمد سلفی اور دیگر اساتذہ نے جس محبت و اپنائیت کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لیے قیمتی تحفے سے کم نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے سے بھی ہم لوگوں کا قدیم رشتہ رہا ہے۔ ہمارے والد یہاں برابر آتے رہے اور امرڈوبھا کے اہل حدیث افراد ان کی بے حد قدر کرتے رہے ہیں۔ ہمارے والد یہاں کی اہل حدیث مسجد میں اکثر نماز جمعہ بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ علاقے کا ایک معروف اہل حدیث ادارہ ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے گاؤں اور یہاں کے لوگوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ امرڈوبھا ہم لوگوں کے لیے ایسا ہی ہے جیسے ہمارے گاؤں کا ایک دوسرا محلہ۔ لہٰذا کئی دہائیوں کے بعد جب حاضری کا موقع ملا تو بڑی مسرت حاصل ہوئی۔
لیکن وہاں کا غیر معاون و غیر صحت بخش تعلیمی ماحول دیکھ کر افسوس ہوا۔ پہلے وہاں اتنے زیادہ طلبہ نہیں ہوتے تھے۔ سامنے سڑک پر اس کی کئی دکانیں تھیں جو کرائے پر اٹھی ہوئی تھیں۔ لیکن جب سے وہ ایڈیڈ ہوا ہے طلبہ کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ ادارہ 1957 میں قائم ہوا تھا۔ اس میں پرائمری درجات سے لے کر چوتھی جماعت تک دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے دکانیں خالی کرا کر انھیں بھی کلاس روم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ صورت حال بہت عجیب نظر آئی کہ وہیں کلاسز چل رہی ہیں اور وہیں آنگن سے متصل برآمدے میں ایک خاتون مطبخ کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ نہ تو ان کے لیے پردے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی اختلاط سے بچنے کی کوئی صورت۔ حالانکہ یہ عمارت تین منزلہ ہے لیکن کلاس روم میں طلبہ کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے اساتذہ کے لیے جگہیں بہت تنگ ہو گئی ہیں۔ ہم نے اس کمرے کو دیکھنا چاہا جہاں ہم پہلے آیا کرتے تھے اور جس میں ہمارے والد ٹھہرتے تھے۔ لیکن اس کا حلیہ دیکھ کر ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ مولانا آفاق صاحب اوپر لے گئے اور وہاں بھی ’’جائے تنگ است و مردماں بسیار‘‘ والا معاملہ تھا۔ البتہ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ چھت پر ایک برآمدے میں دو تین خواتین کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔ ان کے لباس سے اندازہ ہوا کہ وہ غیر مسلم ہوں گی۔ بتایا گیا کہ یہ مڈ ڈے میل تیار کر رہی ہیں۔ خیر یہ اچھا تھا کہ ان کے لیے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ ہم نے اس کے نسواں مدرسے یا گرلز اسکول کو بھی دیکھا جہاں انٹر تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اسے ہم نے پہلی بار دیکھا۔ وہ مسجد اہل حدیث سے متصل ہے۔ لیکن جب تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم وہاں پہنچے تو وہ جگہ ہمیں کسی جیل خانے کی مانند لگی۔ وہیں ایک ہمارے رشتے دار اور محمدیہ کے سابق استاد مولانا ذکاء اللہ سے بھی ملاقات ہو گئی۔ جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد تدریسی خدمات کے لیے روک لیا گیا ہے۔ ان سے مل کر اچھا لگا۔ انھوں نے ہمارے گاؤں کے مدرسے میں بھی تعلیم پائی ہے۔ ان سے ملاقات پر بہت سی پرانی باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔
ہمیں یاد تھا کہ مولانا آفاق احمد سلفی نے بتایا تھا ادارے کی جانب سے جھیل کے کنارے بہت بڑا قطعہ آراضی لے کر تعمیراتی کام انجام دیا گیا ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں ان سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ ہاں عمارتوں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ بس کچھ قباحتیں ہیں جس کی وجہ سے ادارہ وہاں منتقل نہیں کیا جا سکا ہے۔ انھوں نے ہمیں وہ جگہ دکھائی۔ یقین جانیے کہ اب تک کے مشاہدات سے جو کوفت ہوئی تھی وہ یہاں آکر مسرت و شادمانی میں بدل گئی۔ کافی بڑی جگہ اور بہت سی عمارتوں کے الگ الگ بلاک۔ ایک بڑی سی مسجد بھی تعمیر کی جا چکی ہے۔ یہ عمارتیں بہت پہلے بن گئی ہیں لیکن چونکہ وہ آبادی سے دور ہیں اس لیے خراب ہورہی ہیں۔ یہ ایک نہایت کشادہ جگہ ہے اور تعلیمی ماحول کے لیے سازگار ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو ادارے کو یہاں منتقل کر دیا جانا چاہیے۔
ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر
سدھارتھ نگر میں ہمارے ایک دیرینہ دوست اور جماعت اہل حدیث کے ایک انتہائی مخلص فرد محمد فاروق صاحب رہتے ہیں۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات 1987 میں دہلی میں ہوئی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد وہ آب و دانہ کی تلاش میں قطر چلے گئے تھے۔ کئی برس گزار کر جب انڈیا واپس آئے تو تجدید تعارف ہوئی۔ وہ ایک عرصے سے ہمیں دعوت دیتے رہے لیکن کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ اس بار ہم نے ان سے بارہا کیا جانے والا وعدہ وفا کرنے کا ارادہ کیا۔ شیخ وصی اللہ عبد الحکیم مدنی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ ہر جمعرات کو سدھارتھ نگر میں واقع ضلعی جمعیت اہل حدیث کے دفتر جاتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے اسی حساب سے منصوبہ بندی کی۔ یعنی ہم 21اگست کو وہاں پہنچے۔ محمد فاروق کے علاوہ مولانا عبدالرحیم مونس فیضی بھی مدعو کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان تینوں حضرات کو اس پروگرام کی اطلاع دے دی گئی۔ چونکہ ہمارا انتظار شیخ وصی اللہ عبد الحکیم مدنی کافی دیر سے کر رہے تھے اس لیے ہم لوگ پہلے جمعیت کے دفتر گئے۔ شیخ نے جمعیت کی جانب سے گراں قدر مطبوعات بطور تحفہ عنایت فرمائیں۔ یہ مطبوعات ہیں: تفسیر احسن البیان، مختصر فقہ اسلامی، ریاض الصالحین، ہمارا عقیدہ، سخن ہائے اہل قلم، امام ابو عیسیٰ ترمذی اور ان کی جامع اور قرآن مجید کی انسائیکلوپیڈیا (ہندی)۔ ہم نے بھی اپنی چند تصنیفات جمعیت کو ہدیہ کیں۔ اس موقع پر محمد آفاق عرف چرچل کے چھوٹے فرزند اور مخیر جماعت مولانا رفیع احمد ندوی، نائب ناظم ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر مولانا محمد ہاشم سلفی اور ناظم مقامی جمعیت اہل حدیث حلقہ نوگڑھ مولانا امیراللہ یوسفی آفس سکریٹری وغیرہ موجود رہے۔ ہمارے میزبانوں نے جمعیت کی دعوتی، اصلاحی و تصنیفی سرگرمیوں سے باخبر کیا۔
وہاں سے فراغت کے بعد ہم لوگ محمد فاروق صاحب کے دولت کدے پر گئے جہاں پرتکلف ظہرانے کا اہتمام تھا۔ وہاں بھی متعدد احباب جماعت موجود تھے۔ اسی صبح کو مولانا عبد الرحیم مونس فیضی کے والد حاجی عبد الرؤف خان کے انتقال کی دلدوز خبر موصول ہوئی تھی۔ چونکہ پروگرام طے تھا لہٰذا سفر کو ملتوی نہیں کیا گیا۔ البتہ ہم لوگ ظہرانے سے فراغت کے بعد حاجی صاحب کی تدفین میں شرکت کے لیے مونس فیضی کے گاؤں کونڈرا کرمہوا گئے۔ وہاں متعدد اہل علم سے ملاقات ہوئی۔ تدفین سے فراغت کے بعد مونس فیضی کے ساتھ اظہار تعزیت کیا گیا۔ اس طرح ہمارا یہ سفر غم و افسوس کے نوٹ پر ختم ہوا۔



آپ کے تبصرے