مناظر طبیعت اور اشیاے خلقت کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیاوی لحاظ سے اسی چیز کو استحکام وپائیداری حاصل ہے جس کی نشوو نما میں ایک معتد بہ وقت لگا ہو اور جس کے پروان چڑھنے میں صبر آزما انتظار کے مرحلے سے گزرنا پڑا ہو۔ بیل اور درخت ہی کی مثال لے لیجیے۔ بیل جس قدر جلدی سطح زمین پر اپنے وجود کو پھیلاتی ہے اسی قدر تیز رفتاری کے ساتھ چند ہی مہینوں میں اس کا وجود معدوم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک درخت کو تناور ہونے میں طول طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ درخت فضا میں اپنی شاخیں پھیلانے سے پہلے اندرونِ زمین اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور ایک لمبا وقت لینے کے بعد جب تناور اور پھل دار بنتا ہے تو لوگ اس کے پھل اور سایے سے سالوں مستفید ہوتے ہیں۔
علم کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح کا ہے۔ وہی علم مضبوط و مستحکم اور نفع بخش ہوتا ہے جس کی بنیاد مضبوط ہو اور جس کے حصول کے لیے جید وممتاز اساطین علم و فن کے سامنے عرصہ دراز تک زانوے تلمذ تہ کیا گیا ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے حصول علم کے لیے ایک طالب علم کی رہنمائی جن چھ چیزوں کی طرف کی ہے ان میں سے ایک چیز ‘طول زمان’ یعنی لمبی مدت بھی ہے۔ محدثین، فقہا اور علماے متقدمین کے علمی استحکام میں یہی راز پنہاں تھا کہ وہ علم طلبی کی راہ میں لمبی مدت تک گام فرسائی کرتے، ایک ایک حدیث کے لیے مہینوں کا سفر کرتے، وقت کے سب سے بڑے عالم سے کسب علم کو باعث شرف سمجھتے اور اس راہ میں اخلاص کے ساتھ سب کچھ لٹانے کو ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے علم میں حیرت انگیز طور پر برکت ڈال دی اور دنیا ان کے علم و عرفان کا لوہا ماننے پر مجبور ہو گئی۔ انھوں نے سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنی کثیر تعداد میں کتابیں لکھ دی ہیں کہ ہمارے پاس ان کے مطالعے کا وقت نہیں ہے۔ آج ہم علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، علامہ ابن باز، علامہ ابن عثیمین اور خصوصی طور پر علامہ البانی رحمہم اللہ کی تالیفات و تصنیفات کے تذکرے خوب کرتے ہیں، ان کی علمی خدمات و باقیات کی مثالیں خوب دیتے ہیں، لیکن جان کاہ محنت ومشقت اور سینکڑوں کتابوں کی چھان پھٹک اور مطالعہ و مناقشہ کے بعد جو کتابیں انھوں نے تالیف فرمائی ہیں، ہم میں سے بہتوں کو ان کے نام سے بھی آشنائی نہیں ہے۔
آج کے تیز رفتار دور میں طلبہ بھی بڑے تیز رفتار واقع ہوئے ہیں۔ وہ ہندوستانی مدارس وجامعات کی آٹھ سالہ مدت تعلیم کو بھی اپنے لیے گراں سمجھنے لگے ہیں۔ بہت سارے طلبہ محض اس لیے ہر سال ادارہ تبدیل کرتے ہیں تاکہ وہ بیچ کی کوئی جماعت چھوڑ کر آگے چھلانگ لگا سکیں۔ اس غیر دانشمندانہ چھلانگ کو کامیاب بنانے میں ہمارے مدارس کا تعلیمی معیار بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ جامعہ الہدی الاسلامیہ میں دوران تدریس اس بات کا تلخ تجربہ ہوا۔ وہاں ثانویہ اولی میں پڑھنے والے ایک طالب علم نے ہندوستان کے معیاری کہے جانے والے اداروں میں سے کسی ادارے میں عالمیت میں داخلہ لے لیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں ہیں جو موجودہ زمانے کےطلبہ کی جلدی بازی اور بنا کچھ حاصل کیے سند فراغت لینے کی للک کو درشاتی ہیں۔ اس جلدی بازی کو بڑھاوا دینے میں عوام بلکہ بعض خواص کا فاسد ذوق بھی کارفرما ہے۔ دو چار تقریروں اور تحریروں کو علمی قابلیت کا معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ کثیر تعداد میں ہمارے درمیان ایسے نام نہاد مولوی موجود ہیں جنھیں احادیث کی معمولی سمجھ نہیں، اعراب کا کوئی پتہ نہیں، عربی زبان کی عین تک کی شدبد نہیں، لیکن ادھر ادھر سے رٹ کے دوچار تقریریں کیا کرلیتے ہیں کہ لوگ انھیں علامہ سے کم سمجھنے پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس ایک جید عالم اگر گھن گرج والی تقریر نہیں کر پاتا، اس کے خطاب میں عیاری ومکاری کی آمیزش نہیں ہوتی، نام نہاد مقررین کے چبائے ہوئے لفظوں کی جگالی نہیں کرتا تو لوگ اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے بلکہ عوام کالانعام اسے عالم ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ علمی زوال اور فاسد ذوق کے کس قدر المناک وقت سے ہم گزر رہے ہیں، آشنایان علم وادب سے یہ بات مخفی نہیں ہے۔
مادیت کے اس دور میں اساتذہ کی تنخواہوں کا جو معیار ہے اس نے بھی طلبہ کے استعجال بالتخرج میں اہم رول ادا کیا ہے۔ طلبہ کے سامنے اپنے اساتذہ کی مالی حالت عیاں ہوتی ہے، وہ کن معاشی مشکلات سے دوچار ہوتے اور کس طرح گزر بسر کرتے ہیں، سب کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ طلبہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ کا یہ حال ہے تو ہمارا کیا بنے گا۔چنانچہ ان کی اکثریت محض اس ارادے سے سند فراغت حاصل کرنا چاہتی ہے کہ اگر کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ملا تو معلمی کا سیکنڈ آپشن تو اپنے پاس باقی رہے گا۔ آپ اخلاص کی بات کیجیے گا کہ حصول علم میں اخلاص ہونا چاہیے۔ یقینا ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مادیت کے عفریت کے سامنے اچھے اچھوں کا اخلاص خلاص طلب کرنے لگتا ہے۔ لاک ڈاون نے تو اچھی طرح ہمیں سبق دے ہی دیا ہے، اس سلسلے میں مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
علمی ناپائیداری کسی مہلک وبا سے کم نہیں ہے۔ وبا جسمانی اعتبار سے وقتی طور پر نقصان دہ ہوتی ہے۔ جبکہ علمی سطحیت دین و ایمان کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ نااہل لوگ علم کے نام پر جب جہالت پھیلائیں گے تو روے زمین پر کس طرح کا فساد برپا ہوگا اور ہر طرف گمراہی کس تیزی سے پھیلے گی، ارباب عقل و خرد اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس لیے اساطین علم و فن، ملت کے بہی خواہان اور خاص طور پر ارباب مدارس کو چاہیے کہ اس مسئلے میں سنجیدہ ہوں، اس پر غور وفکر کریں اور دینی علم سے تنفر کا جو مرض دن بدن پھیلتا جارہا ہے، اس کا مداوا تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اللہ تعالی توفیق ارزانی کرے۔ آمین
ماشاءاللہ
بہت اچھی تحریر ہے اللہ تعالیٰ برکت دے آمین
شکریہ
يا رب العالمين
jazaakallahu khairan bade aham masle ki nishaan dahi ki
صد فیصد درست فرمایا شیخ آپ نے ۔۔ اللہ ااجر جزیل سے نوازے۔۔