وہ منتشر وجود کو ہمیشہ جوڑ کر چلے
مگر سماج ہر قدم اسے مروڑ کر چلے
حجاب و دید میں اسے روایتوں کی لاج تھی
کبھی نہ یہ ہوا کہ وہ رواج توڑ کر چلے
بقدر ظرف بادہ گر دہند ایں ستم بُوَد!
انڈیل اس قدر دیا کہ جام پھوڑ کر چلے
تھی نقد عمر اس کے پاس ایک مشت ہی مگر
وہ چاہتا تھا کہ رخ حیات موڑ کر چلے
یہ ریت نہ بجھا سکی کسی کی پیاس کو مگر
بخیل بحر بیکراں اسے نچوڑ کر چلے
جو مانتے تھے ثاقبا! میں ان کے بعد کچھ نہیں
قرار آئے کس طرح؟ مجھے وہ چھوڑ کر چلے
آپ کے تبصرے