اولاد اور عدل

ام حبان بہاولپوری تعلیم و تربیت

کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ (صحیح بخاری) آپ سب نگراں ہیں اور اپنی رعایا کے مسئول ہیں۔
اگر اسلامی معاشرے میں ہر شخص نگراں ہے تو والدین اپنی اولاد پر نگراں ہیں، وہ مسئول ہیں کہ اولاد کے درمیان عدل قائم کیا؟
ان المقسطین عنداللہ علی منابر من نور عن یمین الرحمن (صحیح مسلم:١٨٢٧) عدل کرنے والے رحمن کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے۔
یوں تو عدل کو اپنے طرز زندگی کے ہر معاملے میں مقدم رکھنا چاہیے مگر اولاد کی پرورش میں اس کو یوں بھی زیادہ ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ ایک نسل کی پرورش ہمارے کندھوں پر رکھی گئی ہوتی ہے۔
اس معاملے میں ذرا سی کوتاہی ایک بچے کو دوسرے پر فوقیت دینا، ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے بچوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
عام مشاہدہ ہے والدین جس بچے پر دوسری اولاد کی نسبت ڈانٹ ڈپٹ تادیب یا سختی سے کام لیتے ہیں اس بچے میں اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔
سب سے پہلے تو مالی کفالت کا معاملہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی نہ کسی گھر میں یہ صورت حال ہے کہ ایک اولاد پر رقم کھلے ہاتھ سے خرچ کی جارہی ہوتی ہے جبکہ اپنے ہی سگے دوسرے بچے کو اپنے مال سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اخبارات میں اولاد کو عاق کرنے کی خبریں ایک مستقل صفحہ ہے جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کفی بالمرء إثما ان يضيع من يقوت (سنن ابی داؤد: ١٦٩٢ و سندہ حسن) کسی کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان افراد کو ضائع کردے جن کے تئیں کفالت کا ذمہ تھا۔
اسلام نے جو وراثت کا مستقل قانون بنایا ہے اس کی رو سے تو اولاد کو عاق کر کے وراثت سے محروم کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
بعض گھرانوں میں دیکھنے میں آیا ہے دیگر بہن بھائی ذہین ہیں مگر کوئی ایک بچہ اچھی پوزیشن نہیں لارہا تو والدین مقابلے کی فضا پیدا کر کے اس بچے پر نفسیاتی دباؤ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں جس سے بچے کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہنے لگتی ہے۔ جبکہ کسی گھرانے میں اولاد صرف اولاد نرینہ کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ بیٹیوں کی پیدائش پر چہرے کی متغیر رنگت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“من ابتلي من البنات بشيء، فاحسن اليهن كن له سترا من النار” (صحیح البخاری:١٤١٨) جسے بیٹیوں کی آزمائش آئے اور وہ ان سے اچھا برتاؤ کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں میں اور وہ جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے۔” راوی حدیث محمد بن عبدالعزیز نے درمیانی اور شہادت والی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔ (الادب المفرد:٨٩٤ صحیح)
یہاں بھی معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے کہیں تو بیٹوں کو برتر سمجھا جاتا ہے اور کبھی بیٹیوں کی حد سے بڑھی محبت میں بیٹوں کو نظر انداز کرنا بھی معمول کی بات ہے۔ بیٹیوں کی اچھی پرورش کے لیے یہ ضروری تو نہیں کہ بیٹوں پر توجہ و محبت کو یکسر پس پشت ڈال دیا جائے یا بیٹے کا حق مار کر بیٹی کو نوازا جائے، والدین افہام و تفہیم، بصیرت سے کام لے کر بیٹا بیٹی دونوں کے درمیان عدل کا معاملہ انجام دے سکتے ہیں اور اولاد سے یکساں سلوک اسی قسم کے رویوں کا متقاضی بھی ہے۔
ابن عون نے ہمیں شعبی سے، انھوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا، پھر مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو گواہ بنائیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم نے اپنے سب بچوں کو یہ (اسی طرح کا) تحفہ دیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم ان سب سے اسی طرح کا نیک سلوک نہیں چاہتے جس طرح اس (بیٹے) سے چاہتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں (ظلم پر) گواہ نہیں بنتا۔ (کیونکہ اس عمل کی بنا پر پہلے تمھاری طرف سے اور پھر جوابا ان کی طرف سے ظلم کا ارتکاب ہوگا۔ (صحیح مسلم: ٤١٨٦)
میڈیکل سائنس اور نفسیاتی معالج باور کراچکے ہیں جو والدین بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں وہ اپنی آمدنی میں سے ان کی نفسیاتی ٹریننگ اور علاج معالجے کا خرچ ضرور نکال کر رکھیں۔
ایک شخص کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے تمھارے دل سے بچوں کی محبت نکال لی تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
حدثنا ابو بكر حدثنا ابو خالد الاحمر عن حميد عن انس قال: “اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن صبيان فسلم علينا” (انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، (اس وقت) ہم بچے تھے تو آپ نے ہمیں سلام کیا)
غرض اسلام اولاد سے محبت عدل کا درس دیتا ہے۔ اس درس پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم اپنے سرمایہ حیات کو ضیاع سے بچا سکتے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000