علامہ بقاعی کا پورا نام برہان الدين ابو الحسن ابراهيم بن عمر بن حسن البقاعی ہے۔
سنہ ٨٠٩ ہجری میں سوریا کے ”بقاع“ میں پیدا ہوئے۔ اور سنہ ٨٨٥ ہجری میں وفات پائی۔
آپ نے ایک زمانے تک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے کسب فیض کیا، خصوصا علم حدیث کو ان سے خوب پڑھا اور سیکھا، خود فرماتے ہیں:
“قد انتفعت به في علم الحديث وغيره كثيرًا، جزاه الله عنا خيرًا”. (علم حدیث وغیرہ میں ان سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اللہ انھیں ہماری طرف سے نیک بدلہ عطا فرمائے۔) [عنوان الزمان بتراجم الشيوخ والأقران:١/١٣٢]
آپ حافظ ابن حجر کے ان چند مشہور شاگردوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے دنیا کے سامنے ان کا تعارف کرانے اور لوگوں تک ان کا علم پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
اللہ تعالی کسی کے علم کی حفاظت کرنا چاہے تو اس کے متعدد اسباب پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اگر کوئی صرف اس موضوع پر لکھنا چاہے تو ایک ضخیم کتاب تیار کر سکتا ہے۔
اس کی ایک مثال علامہ بقاعی کی کتاب ”النُّکَتُ الوَفِیَّہ“ ہے۔
اللہ تعالی نے ان کے ذریعہ علوم حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ایسے بہت سارے علمی فوائد کی حفاظت کی جو خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتابوں میں یا ان کے دوسرے شاگردوں کے پاس نہیں ملتیں۔
اگر کہا جائے کہ یہ حافظ ابن حجر کی ہی کتاب ہے تو شاید بے جا نہ ہو۔ پوری کتاب ان کے اقوال سے پُر ہے۔ علامہ بقاعی کی اپنی تحقیق کا حجم شاید پوری کتاب کا دسواں حصہ بھی نہ ہو۔
اس کتاب میں ان کا منہج یہ ہے کہ اپنی تحقیق بیان کرتے وقت شروع میں لفظ ”قلتُ“ کا استعمال کرتے ہیں، اور آخر میں ”اللہ اعلم“ کا۔
خود اپنا منہج واضح کرتے ہوئے کتاب کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
“واعلم أن ما كان فيها من بحثي صدرتُه فِي الغالب بـ «قلتُ»، وختمتُه بقولي «والله أعلم»”[١/٥٢]
ان کی اس عبارت پر نوٹ چڑھاتے ہوئے کتاب کے محقق ڈاکٹر ماہر یاسین الفحل فرماتے ہیں:
“ومن يطالع الكتاب لأول وهلة يجد أن ما لم يصدره بـ: «قُلْتُ» أكثر بكثير مِمَّا صدره بـ «قلت»، مِمَّا يدلنا على أن غالب الكتاب منقول عن لسان الحافظ ابن حجر؛ زيادة على النصوص الكثيرة التي صرح فيها بالنقل عنه”. (جو ان کی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اسے پہلے پہل ہی لگے گا کہ جہاں پر قلت سے شروع کیا ہے وہ اس کے بہ نسبت کہیں زیادہ ہے جہاں قلت سے شروع نہیں کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کتاب کا اکثر حصہ حافظ ابن حجر کی زبانی منقول ہے۔ مزید یہ کہ اس میں بہت سارے ایسے نصوص بھی ہیں جن میں انھوں نے صراحت کی ہے کہ یہ حافظ ابن حجر سے منقول ہیں)
نیز فرماتے ہیں:
“ويظهر لمن يطالع الكتاب أن ما صدره بـ «قلت»، وختمه بـ «الله أعلم» لا يمثل عُشر الكتاب”. (جو کتاب کا مطالعہ کرے گا اسے پتہ چل جائے گا کہ جو ”قلت“ سے شروع کیا ہے اور ”اللہ اعلم“ پر ختم کیا ہے وہ کتاب کے دسویں حصے کی بھی نمائندگی نہیں کرتا)
جیسا کہ شروع میں کہا گیا کہ آپ نے ایک مدت تک حافظ ابن حجر کی شاگردی اختیار کی ہے۔ صرف حضر میں نہیں بلکہ سفر میں بھی ان سے خوشہ چینی کی ہے۔ ان کی کتابوں کو خود ان سے پڑھا ہے، بلکہ اپنے ہاتھوں سے ان کی کتابت بھی کی ہے۔ دوران درس وگفتگو ان کی زبان سے نکلے بہت سارے علمی نکات کو جمع کیا ہے۔ ان بکھرے موتیوں کو انھوں نے اس کتاب میں جمع کرنے کی خدمت انجام دی ہے۔ فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔
آپ کے تبصرے